باب: اس بیان میں (کہ بوقت ضرورت) گھروں میں جائے نماز (مقرر کر لینا جائز ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: About (taking) the mosques in the houses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور براء بن عازب ؓ نے اپنے گھر کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھی۔اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔
431.
حضرت محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ رسول اللہ ﷺ کے ان انصاری صحابہ میں سے ہیں جو شریک بدر تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بینائی جاتی رہی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، لیکن بارش کی وجہ سے جب وہ نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے تو میں نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں نہیں آ سکتا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو جائے نماز قرار دے لوں۔ راوی کہتا ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں إن شاءاللہ جلد ہی ایسا کروں گا۔‘‘ حضرت عتبان ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دوسرے روز دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میرے اجازت دینے پر آپ گھر میں داخل ہوئے اور بیٹھنے سے پہلے فرمایا: "تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟" حضرت عتبان ؓ کہتے ہیں:میں نے گھر کے ایک کونے کی نشان دہی کی تو آپ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ ہم نے صف بستہ ہو کر آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے تو آپنے دو رکعت نماز پڑھی اور اس کے بعد سلام پھیر دیا۔پھر ہم کچھ حلیم تیار کر کے آپ کو روک لیا۔ اس کے بعد اہل محلہ میں سے کئی آدمی گھر میں آ کر جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ مالک بن دخشين یا ابن دخشن کہاں ہے؟کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا مت کہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے لا إله إلا الله کہتا ہے۔‘‘ وہ شخص بولا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، بظاہر تو ہم اس کا رخ اور اس کی خیرخواہی منافقین کے حق میں دیکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر آگ کو حرام کر دیا ہے جولا إله إلا الله کہہ دے بشرطیکہ اس سے اللہ کی رضامندی ہی مقصود ہو۔ حضرت امام زہری ؒ کہتے ہیں: پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے، جو قبیلہ بنو سالم کے ایک فرد اور ان کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے، محمود بن ربیع ؓ کی اس روایت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔
تشریح:
1۔ یہاں مسجد میں مراد یہ ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لی جائے۔ اس پر عام مساجد کے احکام نافذ نہیں ہوں گے، کیونکہ عام مساجد کسی کی ملک نہیں ہوتیں۔ ان کی خریدوفروخت نہیں کی جا سکتی، ان میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ بحالت جنابت و حیض ان میں آمدورفت جائز نہیں، جبکہ گھر کی مسجد صاحب خانہ ملکیت ہوتی ہے۔ اس کی خریدو فرخت جائز ہے۔ اس کا میراث میں تقسیم کیا جا نا بھی جائز ہے۔ جنابت اور حیض کی حالت میں وہاں آمدو رفت رکھنا بھی جائز ہے۔ اگر گھر کی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو صرف جماعت کا ثواب حاصل ہو گا۔ مسجد کی جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ معذور کے لیے اس طرح کی گھریلو مساجد میں فرائض کی ادائیگی درست ہے۔ اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لی جائے جہاں معذوری کی صورت میں نماز باجماعت کا اہتمام ہوتو جماعت کا ثواب مل جائے گا اور اس پر مسجد شرعی سے غیر حاضر ہونے کا الزام عائد نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ گھروں میں نماز باجماعت کا ثبوت ظالم حکمرانوں کے زمانے میں اور دوسرے اعذار کے وقت ہوا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے، مثلاً: نابینے کی امامت کا جائز ہونا، کیونکہ حضرت عتبان ؓ نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ اپنی بیماری کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کے شکوہ و شکایت میں داخل نہیں۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز با جماعت کا اہتمام تھا۔ معذوروں کے لیے بارش اور سخت تاریکی میں جماعت کی پابندی ضروری نہیں۔ ضرورت کے وقت گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی بھی جگہ مقرر کی جاسکتی ہے۔ ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ کسی نیک آدمی کو گھر میں خیروبرکت کے لیے دعوت دی جائے تو ایساکرنا جائز ہے۔ بڑے لوگوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے لوگوں کی دعوت قبول کریں اور اس میں حاضر ہوں۔ وعدہ پورا کرنا چاہیے اور اس کے لیے"إن شاء اللہ" کہنا چاہیے۔ اگرمیزبان پر اعتماد ہو تو دعوتی حضرات کے علاوہ دوسرے کو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اہل خانہ سے اجازت لینا شریعت کا اہم تقاضا ہے۔ اہل محلہ کا کسی عالم یا امام کے پاس حصول برکت کے لیے جمع ہونا بھی جائز ہے۔ امام کے سامنے اس شخص کا تذکرہ کرنا جس سے دن اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ توحید پر مرنے والا ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا۔ موسم برسات میں (جبکہ آمد و رفت میں مشقت ہو ) نماز گھروں میں پڈھنا جائز ہے۔ نوافل با جماعت ادا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تداعی (ایک دوسرے کو اس کے لیے دعوت دینا) نہ ہو۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو د س زیادہ مقامات پر بیان کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ جیسا کہ تفصیل بالا سے واضح ہے۔ (فتح الباري:677/1) 3۔ چونکہ حضرت محمود بن ربیع ؓ ایک کم سن صحابی ہیں، نیز اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے لیے صرف ایمان ہی کافی ہے، اعمال کی ضرورت نہیں، اس لیے ابن شہاب نے اطمینان قلب کے لیے حضرت حصین بن محمد انصاری سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ جب ان سے پوچھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ جیسے امام بخاری ؒ نے آخر میں بیان کیا ہے۔ 4۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان سے حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھروں میں مساجد بنانے اور انھیں صاف ستھرا اور معطر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:455) نیز حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے اپنے بیٹوں کو خط لکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں گھروں میں مساجد بنانے، ان کی اصلاح کرنے اور انھیں پاکیزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:456)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
422
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
425
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
425
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
425
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔( فتح الباری:1/672۔)اس باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر گھر میں مسجد بنا لی جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟اس کی اور مسجد شرعی کی حیثیت برابر ہے یا دونوں میں کوئی فرق ہے؟ اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
اور براء بن عازب ؓ نے اپنے گھر کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھی۔اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ رسول اللہ ﷺ کے ان انصاری صحابہ میں سے ہیں جو شریک بدر تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بینائی جاتی رہی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، لیکن بارش کی وجہ سے جب وہ نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے تو میں نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں نہیں آ سکتا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو جائے نماز قرار دے لوں۔ راوی کہتا ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں إن شاءاللہ جلد ہی ایسا کروں گا۔‘‘ حضرت عتبان ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دوسرے روز دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میرے اجازت دینے پر آپ گھر میں داخل ہوئے اور بیٹھنے سے پہلے فرمایا: "تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟" حضرت عتبان ؓ کہتے ہیں:میں نے گھر کے ایک کونے کی نشان دہی کی تو آپ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ ہم نے صف بستہ ہو کر آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے تو آپنے دو رکعت نماز پڑھی اور اس کے بعد سلام پھیر دیا۔پھر ہم کچھ حلیم تیار کر کے آپ کو روک لیا۔ اس کے بعد اہل محلہ میں سے کئی آدمی گھر میں آ کر جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ مالک بن دخشين یا ابن دخشن کہاں ہے؟کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا مت کہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے لا إله إلا الله کہتا ہے۔‘‘ وہ شخص بولا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، بظاہر تو ہم اس کا رخ اور اس کی خیرخواہی منافقین کے حق میں دیکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر آگ کو حرام کر دیا ہے جولا إله إلا الله کہہ دے بشرطیکہ اس سے اللہ کی رضامندی ہی مقصود ہو۔ حضرت امام زہری ؒ کہتے ہیں: پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے، جو قبیلہ بنو سالم کے ایک فرد اور ان کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے، محمود بن ربیع ؓ کی اس روایت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہاں مسجد میں مراد یہ ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لی جائے۔ اس پر عام مساجد کے احکام نافذ نہیں ہوں گے، کیونکہ عام مساجد کسی کی ملک نہیں ہوتیں۔ ان کی خریدوفروخت نہیں کی جا سکتی، ان میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ بحالت جنابت و حیض ان میں آمدورفت جائز نہیں، جبکہ گھر کی مسجد صاحب خانہ ملکیت ہوتی ہے۔ اس کی خریدو فرخت جائز ہے۔ اس کا میراث میں تقسیم کیا جا نا بھی جائز ہے۔ جنابت اور حیض کی حالت میں وہاں آمدو رفت رکھنا بھی جائز ہے۔ اگر گھر کی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو صرف جماعت کا ثواب حاصل ہو گا۔ مسجد کی جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ معذور کے لیے اس طرح کی گھریلو مساجد میں فرائض کی ادائیگی درست ہے۔ اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لی جائے جہاں معذوری کی صورت میں نماز باجماعت کا اہتمام ہوتو جماعت کا ثواب مل جائے گا اور اس پر مسجد شرعی سے غیر حاضر ہونے کا الزام عائد نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ گھروں میں نماز باجماعت کا ثبوت ظالم حکمرانوں کے زمانے میں اور دوسرے اعذار کے وقت ہوا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے، مثلاً: نابینے کی امامت کا جائز ہونا، کیونکہ حضرت عتبان ؓ نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ اپنی بیماری کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کے شکوہ و شکایت میں داخل نہیں۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز با جماعت کا اہتمام تھا۔ معذوروں کے لیے بارش اور سخت تاریکی میں جماعت کی پابندی ضروری نہیں۔ ضرورت کے وقت گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی بھی جگہ مقرر کی جاسکتی ہے۔ ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ کسی نیک آدمی کو گھر میں خیروبرکت کے لیے دعوت دی جائے تو ایساکرنا جائز ہے۔ بڑے لوگوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے لوگوں کی دعوت قبول کریں اور اس میں حاضر ہوں۔ وعدہ پورا کرنا چاہیے اور اس کے لیے"إن شاء اللہ" کہنا چاہیے۔ اگرمیزبان پر اعتماد ہو تو دعوتی حضرات کے علاوہ دوسرے کو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے اہل خانہ سے اجازت لینا شریعت کا اہم تقاضا ہے۔ اہل محلہ کا کسی عالم یا امام کے پاس حصول برکت کے لیے جمع ہونا بھی جائز ہے۔ امام کے سامنے اس شخص کا تذکرہ کرنا جس سے دن اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ توحید پر مرنے والا ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا۔ موسم برسات میں (جبکہ آمد و رفت میں مشقت ہو ) نماز گھروں میں پڈھنا جائز ہے۔ نوافل با جماعت ادا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تداعی (ایک دوسرے کو اس کے لیے دعوت دینا) نہ ہو۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو د س زیادہ مقامات پر بیان کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ جیسا کہ تفصیل بالا سے واضح ہے۔ (فتح الباري:677/1) 3۔ چونکہ حضرت محمود بن ربیع ؓ ایک کم سن صحابی ہیں، نیز اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے لیے صرف ایمان ہی کافی ہے، اعمال کی ضرورت نہیں، اس لیے ابن شہاب نے اطمینان قلب کے لیے حضرت حصین بن محمد انصاری سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ جب ان سے پوچھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ جیسے امام بخاری ؒ نے آخر میں بیان کیا ہے۔ 4۔ ممکن ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان سے حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھروں میں مساجد بنانے اور انھیں صاف ستھرا اور معطر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:455) نیز حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے اپنے بیٹوں کو خط لکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں گھروں میں مساجد بنانے، ان کی اصلاح کرنے اور انھیں پاکیزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:456)
ترجمۃ الباب:
حضرت براء بن عازب ؓ نے اپنے گھر کی مسجد میں نماز باجماعت ادا کی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری ؓ رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں، لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انھیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور ( کسی جگہ ) نماز پڑھ دیں تا کہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے عتبان سے فرمایا، إن شاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ ( دوسرے دن ) رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ ( اس جگہ ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ نے دو رکعت ( نفل ) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا اور مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخشن یا ( یہ کہا ) ابن دخشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے خدا اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے لا إله إلا الله کہا ہے اور اس سے مقصود خالص خدا کی رضا مندی حاصل کرنا ہے۔ تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نےلا إله إلا الله کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص خدا کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر میں نے محمود سے سن کر حصین بن محمد انصاری سے جو بنوسالم کے شریف لوگوں میں سے ہیں ( اس حدیث ) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ محمود سچا ہے۔
حدیث حاشیہ:
علامہ حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کو ثابت فرمایاہے، مثلا: ( 1 ) اندھے کی امامت کا جائز ہونا۔ جیسا کہ حضرت عتبان ؓ نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ ( 2 ) اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔ ( 3 ) یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔ ( 4 ) عتبان جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اوربارش میں جماعت کا معاف ہونا۔ ( 5 ) بوقت ضرورت نماز گھر میں پڑھنے کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا۔ ( 6 ) صفوں کا برابر کرنا۔ ( 7 ) ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ ( 8 ) آنحضرت ﷺ نے جہاں نماز پڑھی اس جگہ کا متبرک ہونا۔ ( 9 ) اگرکسی صالح نیک انسان کو گھرمیں برکت کے لیے بلایا جائے تواس کا جائز ہونا۔ ( 10 ) بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت قبول کرنا۔ ( 11 ) وعدہ پورا کرنا اور اس کے لیے إن شاءاللہ کہنا اگر میزبان پر بھروسا ہے توبغیر بلائے ہوئے بھی اپنے ساتھ دوسرے احباب کو دعوت کے لیے لے جانا۔ ( 12 ) گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت حاصل کرنا۔ ( 13 ) اہل محلہ کا عالم یاامام کے پاس برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا۔ ( 14 ) جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہواس کا حال امام کے سامنے بیان کردینا۔ ( 15 ) ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک کہ دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ ( 16 ) توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔ ( 17 ) برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔ ( 18 ) نوافل جماعت سے ادا کرنا۔ قسطلانی ؒ نے کہا کہ عتبان بن مالک انصاری سالمی مدنی ؓ تھے جونابینا ہوگئے تھے۔ آنحضرت ﷺ ہفتہ کے دن آپ کے گھر تشریف لائے اور حضرت ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہم بھی ساتھ تھے۔ حلیم خزیرہ کا ترجمہ ہے، جوگوشت کے ٹکڑوں کو پانی میں پکاکر بنایا جاتا تھا اوراس میں آٹا بھی ملایا کرتے تھے۔ مالک بن دخیشن جس پر نفاق کا شبہ ظاہر کیا گیاتھا، بعض لوگوں نے اسے مالک بن دخشم صحیح کہاہے۔ یہ بلااختلاف بدرکی لڑائی میں شریک تھے اورسہیل بن عمرو کافرکو انھوں نے ہی پکڑا تھا۔ ابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ مسجد ضرار کو جلانے والوں میں آنحضرت ﷺ نے ان کو بھی بھیجا تھا توظاہر ہوا کہ یہ منافق نہ تھے مگر کچھ لوگوں کو بعض حالات کی بناپر ان کے بارے میں ایسا ہی شبہ ہوا، جیسا کہ حاطب بن بلتعہ ؓ کے بارے میں شبہ پیدا ہوگیا تھا، جب کہ انھوں نے اپنی بیوی اوربچوں کی محبت میں آنحضرت ﷺ کے ارادہ لشکر کشی کی جاسوسی مکہ والوں سے کرنے کی کوشش کی تھی جو ان کی غلطی تھی، مگرآنحضرت ﷺ نے ان کا عذر قبول فرماکر اس غلطی کو معاف کردیاتھا۔ ایسا ہی مالک بن دخشم کے بارے میں آپ نے لوگوں کو منافق کہنے سے منع فرمایا، اس لیے بھی کہ وہ مجاہدین بدرسے ہیں جن کی ساری غلطیوں کو اللہ نے معاف کردیاہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیس سے بھی زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل نکالے ہیں، جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Itban bin Malik (RA): Who was one of the companions of Allah's Apostle (ﷺ) and one of the Ansar's who took part in the battle of Badr: I came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) I have weak eyesight and I lead my people in prayers. When it rains the water flows in the valley between me and my people so I cannot go to their mosque to lead them in prayer. O Allah's Apostle (ﷺ) ! I wish you would come to my house and pray in it so that I could take that place as a Musalla. Allah's Apostle (ﷺ) said. "Allah willing, I will do so." Next day after the sun rose high, Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) came and Allah's Apostle (ﷺ) asked for permission to enter. I gave him permission and he did not sit on entering the house but said to me, "Where do you like me to pray?" I pointed to a place in my house. So Allah's Apostle (ﷺ) stood there and said, 'Allahu Akbar', and we all got up and aligned behind him and offered a two-Rak'at prayer and ended it with Taslim. We requested him to stay for a meal called "Khazira" which we had prepared for him. Many members of our family gathered in the house and one of them said, "Where is Malik bin Al-Dukhaishin or Ibn Al-Dukhshun?" One of them replied, "He is a hypocrite and does not love Allah and His Apostle." Hearing that, Allah's Apostle (ﷺ) said, "Do not say so. Haven't you seen that he said, 'None has the right to be worshipped but Allah' for Allah's sake only?" He said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better. We have seen him helping and advising hypocrites." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah has forbidden the (Hell) fire for those who say, 'None has the right to be worshipped but Allah' for Allah's sake only."