تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہوازن کے مال میں سے ابوسفیان بن حرب کو سواونٹ دیے، اسی طرح صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، مالک بن عوف، اقرع بن حابس، علقمہ بن علاثہ اور عباس بن مرداس کو سو، سواونٹ دیے، اس پر انصار کے کچھ لوگ غمزدہ ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق قریش نوازی کی باتیں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ کوپہنچائیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے متعلق تیرے جذبات کیاہیں؟‘‘ عرض کی:میں بھی تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا: ’’تمام انصار کو اس چمڑے کے خیمے میں جمع کرو۔‘‘ آپ نے انھیں وعظ فرمایا اور کہا: ’’تم میرے لیے اس کپڑے کی طرح ہوجو ہروقت جسم سے لگارہتا ہے۔‘‘ واقعی یہ شرف قیامت تک کے لیے انصار کو حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کےشہر میں آرام فرما رہے ہیں۔ (فتح الباري:69/8)
2۔ حدیث کے آخر میں حضرت انس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی تلقین کے باوجود انصار نے صبر نہیں کیا۔ شاید ان کا اشارہ کچھ انصار کے اس موقف کی طرف ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت کہا گیا تھا کہ ایک امیر تمہارا اور ایک امیر ہماراہوگا۔ مگر جمہور نے انصار نے اس موقف کو مسترد کردیا اور اس کی موافقت کےبجائے قریش کو تسلیم کرلیا۔ واللہ اعلم۔