تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کرنے والا قبیلہ عمرو بن عوف سے ایک منافق تھا جس کا نام معتب بن قشیر ہے، جبکہ بعض نے اس کا نام حرقوص بن زہیر بتایا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ حرقوص کا واقعہ ابوسعید خدری ؓ کی بیان کردہ حدیث میں آگے آرہا ہے۔ (فتح الباري:69/8)
2۔ اعتراض کرنے والے بدبخت نے اتنا بھی غور نہ کیا کہ دنیا کا مال ومتاع سب اللہ کی ملکیت ہے جس پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی رہنمائی کے لیے منتخب کیا ہے اسے پورا پورا اختیار دیا ہے کہ مصلحت کے مطابق جس طرح چاہے اللہ کا مال تقسیم کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا جتنا خیال اس کے رسول کو ہوتا ہے، دوسروں کو دسواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ بد باطن قسم کے لوگوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ خواہ مخواہ دوسروں پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں اور اپنے عیوب پر ان کی نظر نہیں جاتی۔
3۔ واضح رہے کہ حضر ت موسیٰ ؑ بہت ہی شرمیلے تھے، وہ پردے میں رہ کر غسل کرتے تھے جبکہ بنی اسرائیل میں حیاداری کا مادہ نہیں تھا۔ انھوں نے موسیٰ ؑ پر تہمت لگائی کہ ان کے جسم پر برص ہے یا کسی دوسری موذی مرض میں مبتلا ہیں اورایسی باتوں سے حضرت موسیٰ ؑ کو تکلیف پہنچاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی باتوں سے بری قراردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت پہنچائی، اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی باتوں سے بری قراردیا ۔" (الأحزاب:69/33)