تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ سے فارغ ہوئے تو ماہ شعبان 8ہجری میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی سرکردگی میں ایک تبلیغی وفد بنو جذیمہ کی طرف روانہ کیا لیکن حملہ نہیں کیا بلکہ اسلام کی تبلیغ کی تھی۔ یہ وفد ساڑھے تین سومہاجرین و انصار اور بنو سلیم پر مشتمل تھا۔ تبلیغ کے نتیجے میں وہ مسلمان ہوگئے لیکن اپنے اسلام لانے کی تعبیر اچھی طرح نہ کرسکے۔ اس پر خالد بن ولید ؓ نے انھیں قتل اور گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اس موقع پر صرف بنوسلیم کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کوقتل کیا، انصارو مہاجرین نے قتل نہیں کیا تھا۔
2۔ حضرت خالد بن ولید ؓ سے چونکہ اجتہادی غلطی ہوئی تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے خود کو بری الذمہ قراردیا لیکن حضرت خالد ؓ کوکچھ نہیں کہا، البتہ قوم کے افراد بے گناہ مارے گئے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضر ت علی ؓ کو بھیج کر ان کے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔ (فتح الباري:72/8)