تشریح:
1۔ لفظ (أَتَفَوَّق)، فواق، ناقة سے ماخوذ ہے، مطلب یہ ہے کہ میں دن رات تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ہمیشہ قرآن پڑھتا رہتا ہوں، چنانچہ فواق ناقہ یہی ہے کہ ایک مرتبہ اونٹنی کا دودھ لیا جائے، پھر اسے چھوڑدیا جائے تاکہ وہ باقی ماندہ دودھ اتارلے، پھر اس کا دودھ نکال لیا جائے، اس طرح وقفے وقفے سے اس کادودھ نکالاجاتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اس انداز سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور اسی کو اپنا معمول بنایا تھا جبکہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے رات کے حصے متعین کررکھے تھے، کچھ سونے کے لیے اور کچھ تلاوت قرآن کے لیے۔الغرض ان کا سونا بھی اس غرض کے لیے ہوتا تھا کہ وہ قیام کے لیے معاون ثابت ہو۔ اس نیت سے سونا بھی عبادت ہے۔
2۔ واضح رہے کہ نرمی کا مطلب حدودوقصاص میں نرمی کرنا نہیں بلکہ دنیوی اور انتظامی امورمیں نرمی کرنا ہے کیونکہ حدود کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگرتم اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہوتو اللہ کے دین کے معاملے میں تمھیں ان (مرد،عورت) دونوں پرترس نہیں آنا چاہیے۔‘‘ (النور:2:24)
3۔ مبلغین کے لیے اس میں خاص ہدایت ہے کہ وہ لوگوں کو نفرت نہ دلائیں، مشکل اور سخت باتیں ان کے سامنے نہ رکھیں، آپس میں مل جل کر کام کریں، اتفاق واتحاد سے رہیں، ایک دوسرے کی بات مانیں، مگرآج کل ایسے مبلغین بہت کم ہیں۔