تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اللہ کا مال کسی مصلحت کے پیش نظر جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں، اس تقسیم پر اعتراض کرنا اپنے ایمان کو خیرآباد کہناہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پراعتراض کرنے والا ذوالخویصرہ تمیمی تھا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3610) اس تقسیم پر قریش اور انصار ناراض ہوئے تھے کہ ہمیں نظر انداز کرکے نجد کے سرداروں کو نوازا جارہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو ان کی دل جوئی کرتا ہوں تاکہ اسلام پر جمے رہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344) یہ واقعہ جعرانہ میں تقسیم غنائم کے علاوہ ہے۔ (فتح الباري:86/8) صحیح بخاری ؒ کی ایک روایت میں ہے کہ ذوالخویصرہ کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے۔(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344۔) وہ عبادات میں اس قدرتصنع کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم اپنی نمازوں اورروزوں کو ان کی نمازوں اورعبادات کےمقابلے میں حقیر خیال کروگے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث:5058) رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی خوارج کے حق میں پوری ہوئی جو حضرت علی ؓ کے دورخلافت میں ظاہر ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے انھیں کیفرکردارتک پہنچایا۔ (فتح الباري:87/8) رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے ذوالخویصرہ اگرچہ قتل کا حق دار ہوچکا تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے قتل کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ دوسرے لوگ باتیں کریں گے کہ اس نے اپنوں کو قتل کرناشروع کردیا ہے، نیز اس وقت اس کی جماعت نے تحریک کی شکل میں ظہور نہیں کیا تھا، جب تحریک کی شکل اختیار کی تو حضرت علی ؓ نے انھیں قتل کروایا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس تحریک کو کچلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ واللہ اعلم۔