موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمْ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ)
حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
4351 . حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِكُمْ وَكَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ
صحیح بخاری:
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
)مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
4351. حضرت مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر آیا تو آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدی واپس کر دیے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’میرے ساتھ میرے صحابہ کرام بھی ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ تم دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کر لو: قیدی لے لو یا مال واپس لے جاؤ۔ میں نے تمہارا انتظار کیا تھا۔‘‘ واقعی رسول اللہ ﷺ نے طائف سے واپسی پر تقریبا دس دن دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ انہیں صرف ایک چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، مسلمانوں کو خطاب کیا۔ آپ نے پہلے اللہ کے شایان شان حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: ’’اما بعد! تمہارے بھائی تائب (مسلمان) ہو کر ہمارے پاس آئے ہیں، میری رائے یہ ہے کہ میں ان کے قیدی انہیں واپس کر دوں، لہذا تم میں سے جو کوئی اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے، یہ بہتر ہے۔ اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں ان کا حق قائم رہے گا۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ اللہ تعالٰی سب سے پہلے ہمیں جو غنیمت عطا کرے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلے میں دے دیں گے۔‘‘ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: اللہ کے رسول! ہم بخوشی قیدی آزاد کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے بخوشی اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی۔ تم سب اپنے خیموں میں واپس چلے جاؤ حتی کہ تمہارے نمائندہ حضرات تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔‘‘ چنانچہ تمام صحابہ چلے گئے۔ پھر ان کے نمائندوں نے ان سے بات کی اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام ؓ کی رائے آپ سے عرض کی کہ وہ خوش ہیں اور فراخدلی سے اجازت دیتے ہیں۔ (امام زہری ؓ نے فرمایا: ) یہ واقعہ ہے جو قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے پہنچا ہے۔