تشریح:
1۔حضرت جریر ؓ جب ذوالخلصہ کوتباہ وبرباد کرکے فارغ ہوئے تو آپ یمن میں دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے اور خوشخبری سنانے کے لیے ایک قاصد روانہ کیا، نبی کریم ﷺ کو جب ذوالخلصہ کےتباہ ہونے کی خبر ملی تو آپ نے قبیلہ احمس کے لیے پانچ مرتبہ دعا فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ عام طور پر تین مرتبہ دعاکرتے تھے لیکن ان حضرات کے لیے پانچ مرتبہ دعا کی۔ اس سے مقصود مبالغہ تھا کیونکہ ان لوگوں نے اسلام کی سربلندی اور کفر کی تباہی و بربادی کے لیے اپنی قوم سے جنگ مول لی۔ پہلے رسول اللہ ﷺ نے اجتماعی طور پرشہسواروں اور پیادوں کی خیروبرکت کے لیے دعا فرمائی، پھر تاکید کے لیے دومرتبہ شہسواروں کے لیے اور دومرتبہ پیادوں کے لیے الگ الگ دعاکی۔ اس طرح ہر ایک کے لیے تین تین مرتبہ دعا ہوگئی۔ (فتح الباري:91/8)
2۔ یمن میں ایک خرابی یہ بھی تھی کہ وہاں کے لوگ تیروں کے ذریعے سے قسمت آزمائی کرتے تھے جسے قرآن نے حرام کہا ہے لیکن یمن میں اس کی حرمت کے باوجود یہ دھندا عروج پرتھا۔ ممکن ہے کہ ان لوگوں کوحرمت کا علم نہ ہو، چنانچہ حضرت جریر ؓ نے جب سخت کلام کیا اور ڈانٹ پلائی تو پھر اس شخص نے اپنے تیروں کو توڑا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا۔
3۔ ان احادیث میں حضرت جریر ؓ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ انھیں رسول اللہ ﷺ نے خیروبرکت کی دعا سے نوازاتھا۔
4۔ اس بت خانے کو ختم کرنے کی یہ وجہ تھی کہ وہاں کفار ومشرکین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے، رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچانے کے منصوبے بناتے اور کعبہ مقدس کی تنقیص کرتے تھے، لہذا قیام امن کے لیے اس کا ختم کرنا ضروری تھا۔ حالت امن اسلام کسی قوم ومذہب کا عبادت خانہ گرانے کا حکم نہیں دیتا۔
5۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو چیزیں لوگوں کی گمراہی کاسبب بنیں، وہ مکان ہو یا انسان یا کوئی حیوان یا جمادات، شرعی طور پر ان کا ختم کرنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔