تشریح:
1۔ حضرت جریر ؓ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، چنانچہ ان کا اپنا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مجھے فرمایا تھا: ’’لوگوں کو خاموش کراؤتاکہ میں کچھ ان سے کہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:121) شاید اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے انھیں یمن بھیجا ہے، پہلے ذوالخلصہ کا بت پاش پاش کرنے کے لیے، پھر لوگوں کو دعوت اسلام دینے کے لیے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جریر ؓ کویمن روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں سے جنگ کریں اور انھیں اسلام کی دعوت دیں۔ (المعجم الکبیر للطبراني:334/2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالخلصہ کوتباہ وبرباد کرنے اور لوگوں کو دعوت توحید دینے کے الگ الگ واقعات ہیں، بہرحال جب یہ اپنے مشن سے فارغ ہوگئے تو مدینہ طیبہ واپس آنے کا پروگرام بنایا۔ اس دوران میں ان کے ہمراہ ذوکلاع اور ذوعمروبھی تھے۔ ذوعمرو نے حضرت جریر ؓ سے جوباتیں کی ہیں وہ یقیناً انھیں پہلی کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوئی تھیں کیونکہ یہ اہل کتاب کا عالم تھا اور کتب سابقہ کے متعلق پوری پوری معلومات رکھتاتھا۔ ذوعمرونے جو آخری بات کی تھی وہ بھی درست ثابت ہوئی۔
2۔ خلفائے راشدین ؓ کے زمانے تک خلافت مسلمانوں میں آپس کے مشورے سے ہوتی رہی، اس کے بعد طاقت کے بل بوتے پر حکومت کا آغاز ہوا، پھر مسلمانوں کا شیرازہ بکھرگیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد تیس سال تک خلافت رہے گی، اس کے بعد بادشاہت کا دورشروع ہوگا۔‘‘ (مسند أحمد:221/5) بہرحال یہ دونوں حضرات مسلمان تھے اور رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے شوق سے مدینہ طیبہ آرہے تھے لیکن راستے میں جب انھیں آپ ﷺ کی وفات کا علم ہواتو کہنے لگے کہ ہم اپنی ضروریات کے لیے واپس یمن جارہے ہیں، امید ہے کہ جلدہی خلیفہ کی زیارت کے لیے حاضرہوں گے، یعنی ان کا واپس جانا مرتد ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔ (فتح الباري:96/8)