تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دستے کے امیر حضرت قیس بن سعد ؓ تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس لشکر کے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ تھے کیونکہ صحیحین کی روایات کا اسی پر اتفاق ہے۔ چونکہ اس واقعےمیں حضرت قیس ؓ کی بے مثال سخاوت کاذکر ہے، اس لیے ممکن ہے کہ کسی راوی نے ان کی سخاوت کے پیش نظر یہ اندازہ لگا لیا ہوکہ شاید وہی امیر لشکر تھے، حالانکہ دیگرروایات اس کے خلاف ہیں۔ (فتح الباري:99/8)
2۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لشکر کے لیے عمومی زادِسفر تھا۔ جب وہ ختم ہوگیا تو امیر لشکر نے خصوصی زادِسفر کا اہتمام کیا، جبکہ صحیح مسلم میں ہے کہ امیر سفر نے انھیں کھجوروں کا ایک تھیلادیا، اس کے علاوہ اور کوئی زادسفر نہ تھا۔ (فتح الباري:99/8) ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ زادِعام بھی ایک تھیلا تھا، جب وہ ختم ہوگیا تو زاد خاص جمع کیا گیا تھا وہ بھی ایک تھیلا ہوا۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس لشکر کو ایک تھیلا کھجوروں کا دیا تھا۔ راوی نے مزید وضاحت کی ہے کہ جب ہمیں ایک کھجور ملنے لگی تو ہم اسے اس طرح چوستے تھے جس طرح بچہ پستان چوستا ہے، پھر اس پر پانی پی لیتے تو صبح سے رات تک کام چل جاتا تھا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور اپنے پیارے مجاہدین کو رزق مہیا فرمایا۔ (صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث:4998(1935))