صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
51. باب: اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے آگے تنور، یا آگ، یا اور کوئی چیز ہو جسے مشرک پوجتے ہیں، لیکن اس نمازی کی نیت محض عبادت الہٰی ہو تو نماز درست ہے۔
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
51. بَابُ مَنْ صَلَّى وَقُدَّامَهُ تَنُّورٌ أَوْ نَارٌ، أَوْ شَيْءٌ مِمَّا يُعْبَدُ، فَأَرَادَ بِهِ اللَّهَ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
51. Chapter: whoever offered Salat (prayer) with furnace or fire or any other worshipable thing in front of him but he intended Salat solely for Allah
باب: اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے آگے تنور، یا آگ، یا اور کوئی چیز ہو جسے مشرک پوجتے ہیں، لیکن اس نمازی کی نیت محض عبادت الہٰی ہو تو نماز درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: whoever offered Salat (prayer) with furnace or fire or any other worshipable thing in front of him but he intended Salat solely for Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
زہری نے کہا کہ مجھے انس بن مالک ؓ نے خبر پہنچائی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے سامنے دوزخ لائی گئی اور اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا۔یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب وقت الظہرمیں وصل کیاہے، اس سے ثابت ہوتاہے کہ نمازی کے آگے یہ چیزیں ہوں اور اس کی نیت خالص ہو تونمازبلاکراہت درست ہے۔
437.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، پھر فرمایا: ’’مجھے نماز کی حالت میں جہنم دکھائی گئی، چنانچہ میں نے آج کی طرح کا ہیبت ناک منظرکبھی نہیں دیکھا۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس ؒ سے مروی اس حدیث کو نہایت مختصر طور پر یہاں بیان کیا ہے۔ تفصیل کے مطابق رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں دفعتاً پیچھے ہٹے، پھر آگے بڑھے۔ نماز کے بعد دریافت کرنے پر بتایاکہ دوران نماز میں میرے سامنے جنت لائی گئی، میں آگے بڑھا اور اس کا خوشہ انگور توڑناچاہا۔ پھر مجھے جہنم دیکھائی گئی اس کا خوفناک منظر دیکھ کر میں پیچھے ہٹا (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1052) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ثابت کیا کہ اگرنمازی کے سامنےآگ ہو اور نمازی کی نیت صرف اللہ کے لیے نماز پڑھنے کی ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دراصل بخاری کوایسےاجتہادی مسائل ثابت کرنے کے لیے اشاروں سے کام لینا پڑتا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں کوئی نص صریح کتب حدیث میں موجود نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی وقت اختیاری حالات میں آگ کوسامنے کی سمت میں لے کر نماز پڑھی ہو۔ امام بخاری ؒ اس عنوان سے امام ابن سیرین ؒ کی تردید کرنا چاہتے جن کا موقف ہے کہ تنور کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنامکروہ ہے۔ (فتح الباري:684/1) حافظ ابن حجر ؒ نے ایک اور انداز سے امام بخاری ؒ کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ آپ پیش کردہ روایات سے اس فرق کو واضح کرنا چاہتے ہوں۔ اگرنمازی اور اس کے قبلے کے درمیان آگ حائل ہوجائے اور وہ اسے زائل کرنے یا اس سے ہٹ جانے کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے حالات میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اوراگر وہ اس قسم کی آگ کو برقراررکھنے پر مجبور ہواور اسے دورکرنے کی قدرت نہ رکھتا ہوتو ایسے حالات میں نماز پڑھنا جائزہے۔ جیساکہ حضرت ابن عباس ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اس گرجے میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس میں سامنے دیوار پر تماثیل ہوتی تھیں بلکہ ایسے حالات میں باہر بارش میں نماز پڑھنے کو اختیار فرماتے۔ 2۔ بعض حضرات نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث میں صرف آگ دیکھنے کا ذکر ہے، لیکن یہ کہ آپ نے سامنے والی دیوار میں یہ منظردیکھا، حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ممکن ہے کہ دائیں یا بائیں جانب اس آگ کو دیکھا ہو، لہذا اس روایت سے عدم کراہت پر استدلال محل نظر ہے۔ لیکن اس میں اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ حدیث انس میں یہ صراحت ہے کہ بحالت نماز وہ آگ آپ کو پیش کی گئی۔ اس سے بھی زیادہ صراحت حدیث ابن عباس ؓ میں ہے۔ اس میں ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد لوگوں نےعرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ !ہم نے آپ کو دوران نماز میں آگے بڑھتے دیکھا گویا آپ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، پھر دفعتاً ہم نے دفعتاً آپ کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے سامنے جنت اوردوزخ کو لایا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ آگ آپ کے سامنے تھی اور ان روایات کے پیش نظر نمازی کے قریب یا دور ہونے کا فرق بھی صحیح نہیں۔ (فتح الباري:684/1) واضح رہے کہ آگ کو ہی آپ کے پاس لایا گیا تھا۔ یہ احتمال بعید ہے کہ آگ اپنی جگہ پر رہی، صرف درمیان سے حجابات کو دور کردیا گیاتھا۔ واللہ أعلم۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں گیس ہیٹر لگانے میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ وہ بجانب قبلہ ہی کیوں نہ ہوں، تاہم احتیاط کاتقاضا ہے کہ انھیں دائیں بائیں یا عقبی دیوار پر نصب کیاجائے تاکہ سامنے ہونے کی صورت میں نمازی کے لیے تشویش کاباعث نہ بنیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
428
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
431
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
431
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
431
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے :تنور یا آگ یا کوئی ایسی چیز جس کی عبادت کی جاتی ہو۔ان تمام کا حکم ایک ہے کہ یہ نمازی کی نیت پر موقوف ہے۔کہ اگر اس کی نیت سے صحیح ہے تو اس سے نماز میں کراہت یا فساد واقع نہیں ہوتا بلکہ اس کی نماز بلاکراہت صحیح ہوتی ہے،لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کھل کر اپنے موقف کو واضح نہیں کیا،البتہ پیش کردہ روایات سے ان کے موقف کا تعین ہوتا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جس حدیث کو معلق بیان کیا ہے اسے آئندہ(حدیث:540 میں) موصولاً بھی بیان کریں گے ۔پہلے کتاب العلم(حدیث:93) میں بھی اسے مختصراً بیان کیا تھا۔اور جو الفاظ یہاں بیان ہوئے ہیں ان الفاظ کے ساتھ مذکورہ حدیث آئندہ کتاب التوحید(حدیث:7294) میں بھی آئے گی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استدلال پر کچھ حضرات نے اعتراض بھی کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبحالت نماز جو آگ دکھائی گئی تھی وہ ایسی نہ تھی جو کسی قوم کی معبود ہو اور اس آگ کو ہٹانے یا برقرار رکھنے پر بھی آپ کوقدرت نہ تھی بلکہ اسے تو صرف لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے اس آگ کا ایک منظر دکھایاگیا تھا جوقیامت کے دن مجرمین کے لیے ہوگی لیکن اس کا جواب یہ دیاگیا ہے۔کہ اس آگ کے متعلق اختیار یا عدم اختیار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگرغیراختیاری آگ کا دکھانا درست نہ ہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ منظر نہ دکھایا جاتا کیونکہ آپ کسی باطل چیز پر برقرارنہیں رہ سکتے،چنانچہ شاہ ولی اللہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:"اس باب سے مؤلف کی غرض اس شخص کا وہم دورکرنا ہے جو تنور کے بالمقابل نماز پڑھنے کو جائز خیال نہیں کرتا کیونکہ اس طرح محبوس(آگ پرست) سے مشابہت ہوجاتی ہے۔مصنف کے استدلال میں ایک قسم کا خفا ہے اسے یوں دورکیا جاسکتا ہے کہ اگر آگ کا نمازی کے سامنے ہونا اللہ کو ناپسند اور نماز کی خرابی کا باعث ہوتا تواللہ تعالیٰ اسے ا پنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بحالت نماز حاضر نہ کرتا کیونکہ آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے محبوب ہیں۔اللہ تعالیٰ کا اس آگ کو بحالت نماز آپ کے سامنے کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ نماز کے لیے خرابی کاباعث نہیں ہے۔"
زہری نے کہا کہ مجھے انس بن مالک ؓ نے خبر پہنچائی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے سامنے دوزخ لائی گئی اور اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا۔یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب وقت الظہرمیں وصل کیاہے، اس سے ثابت ہوتاہے کہ نمازی کے آگے یہ چیزیں ہوں اور اس کی نیت خالص ہو تونمازبلاکراہت درست ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، پھر فرمایا: ’’مجھے نماز کی حالت میں جہنم دکھائی گئی، چنانچہ میں نے آج کی طرح کا ہیبت ناک منظرکبھی نہیں دیکھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس ؒ سے مروی اس حدیث کو نہایت مختصر طور پر یہاں بیان کیا ہے۔ تفصیل کے مطابق رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں دفعتاً پیچھے ہٹے، پھر آگے بڑھے۔ نماز کے بعد دریافت کرنے پر بتایاکہ دوران نماز میں میرے سامنے جنت لائی گئی، میں آگے بڑھا اور اس کا خوشہ انگور توڑناچاہا۔ پھر مجھے جہنم دیکھائی گئی اس کا خوفناک منظر دیکھ کر میں پیچھے ہٹا (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1052) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ثابت کیا کہ اگرنمازی کے سامنےآگ ہو اور نمازی کی نیت صرف اللہ کے لیے نماز پڑھنے کی ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دراصل بخاری کوایسےاجتہادی مسائل ثابت کرنے کے لیے اشاروں سے کام لینا پڑتا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں کوئی نص صریح کتب حدیث میں موجود نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی وقت اختیاری حالات میں آگ کوسامنے کی سمت میں لے کر نماز پڑھی ہو۔ امام بخاری ؒ اس عنوان سے امام ابن سیرین ؒ کی تردید کرنا چاہتے جن کا موقف ہے کہ تنور کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنامکروہ ہے۔ (فتح الباري:684/1) حافظ ابن حجر ؒ نے ایک اور انداز سے امام بخاری ؒ کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ آپ پیش کردہ روایات سے اس فرق کو واضح کرنا چاہتے ہوں۔ اگرنمازی اور اس کے قبلے کے درمیان آگ حائل ہوجائے اور وہ اسے زائل کرنے یا اس سے ہٹ جانے کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے حالات میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اوراگر وہ اس قسم کی آگ کو برقراررکھنے پر مجبور ہواور اسے دورکرنے کی قدرت نہ رکھتا ہوتو ایسے حالات میں نماز پڑھنا جائزہے۔ جیساکہ حضرت ابن عباس ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اس گرجے میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس میں سامنے دیوار پر تماثیل ہوتی تھیں بلکہ ایسے حالات میں باہر بارش میں نماز پڑھنے کو اختیار فرماتے۔ 2۔ بعض حضرات نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث میں صرف آگ دیکھنے کا ذکر ہے، لیکن یہ کہ آپ نے سامنے والی دیوار میں یہ منظردیکھا، حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ ممکن ہے کہ دائیں یا بائیں جانب اس آگ کو دیکھا ہو، لہذا اس روایت سے عدم کراہت پر استدلال محل نظر ہے۔ لیکن اس میں اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ حدیث انس میں یہ صراحت ہے کہ بحالت نماز وہ آگ آپ کو پیش کی گئی۔ اس سے بھی زیادہ صراحت حدیث ابن عباس ؓ میں ہے۔ اس میں ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد لوگوں نےعرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ !ہم نے آپ کو دوران نماز میں آگے بڑھتے دیکھا گویا آپ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، پھر دفعتاً ہم نے دفعتاً آپ کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے سامنے جنت اوردوزخ کو لایا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ آگ آپ کے سامنے تھی اور ان روایات کے پیش نظر نمازی کے قریب یا دور ہونے کا فرق بھی صحیح نہیں۔ (فتح الباري:684/1) واضح رہے کہ آگ کو ہی آپ کے پاس لایا گیا تھا۔ یہ احتمال بعید ہے کہ آگ اپنی جگہ پر رہی، صرف درمیان سے حجابات کو دور کردیا گیاتھا۔ واللہ أعلم۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں گیس ہیٹر لگانے میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ وہ بجانب قبلہ ہی کیوں نہ ہوں، تاہم احتیاط کاتقاضا ہے کہ انھیں دائیں بائیں یا عقبی دیوار پر نصب کیاجائے تاکہ سامنے ہونے کی صورت میں نمازی کے لیے تشویش کاباعث نہ بنیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے کہا: نبی ﷺنے فرمایا: "دوزخ کو میرے روبرو پیش کیا گیا جب کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے امام مالک کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے، انھوں نے فرمایا کہ سورج گہن ہوا تو نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھی اور فرمایا کہ مجھے ( آج ) دوزخ دکھائی گئی، اس سے زیادہ بھیانک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام ؒ نے یہ نکالا ہے کہ نماز میں آگ کے انگارے سامنے ہونے سے کچھ نقصان نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA): The sun eclipsed and Allah's Apostle (ﷺ) offered the eclipse prayer and said, "I have been shown the Hellfire (now) and I never saw a worse and horrible sight than the sight I have seen today."