تشریح:
1۔ امام بخاری ؓ نے اس حدیث کو انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے جبکہ قبل ازیں یہ حدیث تفصیل سے بیان ہو چکی ہے۔ اس میں ہے کہ اہل یمن نے اس کائنات کے آغاز کے متعلق سوال کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3119)
2۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ اشکال ہے کہ بنو تمیم کے لوگ تو 9ہجری میں مدینہ طیبہ آئے تھے جبکہ اشعری حضرات اس سے پہلے غزوہ خیبر کے موقع پر سات ہجری میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئےان کا اجتماع کیونکر ممکن ہے؟ پھر اس کا یوں جواب دیا ہے کہ کچھ اشعری حضرات غزوہ خیبر کے بعد بھی آئے ہوں گے۔ (فتح الباري:123/8)