تشریح:
1۔ حجۃ الوداع کی وجہ تسمیہ کا علم خاص خاص حضرات کوتھا کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کا انتقال پر ملال ہے۔ عام لوگ حجۃ الوداع کا نام استعمال کرتے تھے لیکن اس کی حقیقی وجہ تسمیہ سے بے خبر تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ شاید میں اس سال کے بعد تمھیں نہ دیکھ سکوں توعام لوگوں نے یہ خیال کیا کہ اس سال کے بعد پھر ایسے اجتماع کے ساتھ آپ حج نہیں کریں گے۔ اس وجہ سے انھوں نے اس حج کو حجۃ الوداع کہا لیکن جب آپ کا چند ماہ بعد انتقال ہوا تو لوگوں کو علم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی الوداعی گفتگو کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص نہ تھی بلکہ آپ عوام وخاص سب سے رخصت ہورہے تھے۔
2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’شاید میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں،اس لیے تم مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3137(1297)) اسی طرح دیگر روایات سے رسول اللہ ﷺ کی قرب وفات کا علم ہوتا ہے، اس وجہ سے اسے حجۃ الوداع کہا گیا۔ بہرحال اکثر صحابہ کرام ؓ کو اس بات کا علم نہ ہوسکا کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے جدا ہورہے ہیں یا کوئی اور ہم سے الوداع ہورہا ہے۔ جب آپ فوت ہوگئے تو معلوم ہوا کہ آپ نے لوگوں کو وصیت کرکے انھیں الوداع فرمایا اور انھیں وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد کافروں جیسے کام نہ کرنا، پھر اللہ کی گواہی کے ساتھ اس الوداع کومزید تقویت پہنچائی۔ (فتح الباري:133/8)