تشریح:
1۔عرب لوگ اپنے مفاد کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ اسے نسئی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس خرابی کاذکر کیا ہے۔ حسن اتفاق سے حجۃ الوداع کے موقع پر مہینوں کی اصل ترتیب تھی جس پرانھیں اللہ نے پیدا کیا تھا۔
2۔ مہینوں کی وجہ تسمیہ کے متعلق علامہ قسطلانی ؒ نے لکھا ہے:جب عرب اپنی قتل وغارت کی عادت چھوڑدیں تو ماہ محرم، جب ان کے بدن کمزور اوررنگ زرد پڑجائیں تو صفر، جب باغات پھل پھول لے آئیں اورخوشبوئیں مہکنے لگیں تو ربیعان، جب پھلوں کی قلت ہوجائے اور پانی جم جائے توجمادیان، جب نہریں چالو ہوجائیں اوردرخت لہلانے لگیں تو رجب، جب اونٹنیوں کے بچے پاؤں سے الگ ہوجائیں اور قبائل پھیل جائیں تو شعبان، جب فضا میں گرمی آجائے اور انگارے دبکنے لگیں تورمضان، جب بادل قلیل اور مکھیوں کی بہتات ہو، جانور دُمیں اٹھانے لگیں تو شوال، جب تاجر، تجارتی سفر سے بیٹھ جائیں تو ذوالقعدہ اور جب حج کے لیے قافلے جارہے ہوں تویہ ذوالحجہ ہے۔ (إرشاد الساري للقسطلاني:148/7)
3۔ حرمت والے چار مہینوں کی ترتیب میں یہ حکمت ہے کہ سال کا آغاز اور اختتام حرمت سے ہو اور درمیان میں بھی حرمت کی یاددہانی رجب سے کی جائے۔ آخر میں دو مہینے مسلسل اس لیے ہیں تاکہ خاتمہ کی برتری کوبرقراررکھاجائے کیونکہ اعمال کا دارومدار بھی خاتمے پر ہے۔ (فتح الباري:135/8) اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے،عنوان سے یہی وجہ مطابقت ہے۔ امام بخاری ؒ نے اسی غرض سے اسے بیان کیا ہے۔