تشریح:
1۔ اس حدیث کو "حدیث قرطاس" کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی وفات پیر کے دن ہوئی اور دستاویز کا واقعہ جمعرات کے دن پیش آیا۔ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں اختلاف ہوا جس کی بنا پر آپ نے دستاویز نہ لکھی۔ اس کے متعلق روافض بہت شور وغل کرتے ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے پرمامور ہیں۔ کسی کے خوف سے آپ فریضہ تبلیغ نہیں چھوڑ سکتے، خصوصاً ایسی چیز جو گمراہی سے بچاتی ہو اسےتو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ ایسی بات ہوئی تو آپ حضرت عمرؓ کو روک دیتے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے حضرت عمر ؓ کو روک دیا تھا۔
2۔ حضرت عمر ؓ صائب الرائے تھے۔ ان کی رائے کے مطابق کئی موقعوں پرقرآن نازل ہوا۔ اگر ایسے آدمی نے روک دیا تو ضرور اس میں کوئی مصلحت ہوگی اور ان کی رائے کی خود رسول اللہ ﷺ نے بھی تائید کی۔ اگر ایسا ضروری معاملہ ہوتا تو آپ اس کے بعد تین چار دن زندہ رہے ان ایام میں کسی سے لکھوا لیتے، نیز قبل ازیں تکمیل دین کی آیت نازل ہو چکی تھی اب اگر گمراہی سے بچانے والی چیز باقی رہ گئی تو پھر تکمیل دین کے کیا معنی ہوں گے؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوئی نئی بات بیان نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ یا تو مفصلات کو مجملاً بیان کرنا چاہتے تھے یا پہلی باتوں میں سے کسی بات کی تاکید کرنا چاہتے تھے جس کے لیے حضرت عمر ؓ نے آپ کو تکلیف دینا ضروری خیال نہ کیا۔ ان حقائق کی روشنی میں فہم عمر کو فہم ابن عباس ؓ پرترجیح دی جائے گی، رسول اللہ ﷺ نے آخر میں تین چیزوں کی وصیت کی تھی جن پر حضرت عمر ؓ عمل پیرا ہوئے۔ حضرت ابن عباس ؓ بھی حضرت عمر ؓ پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ لکھ دیتے تو منافقین کے لیے حضرت عمر ؓ پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ تھی۔
3۔ اس حدیث میں ہے کہ تیسری بات راوی بھول گیا ہے، اس کے متعلق درج ذیل احتمالات ہیں۔ ©وہ وصیت بالقرآن تھی ©۔ وصیت جیش اسامہ کی روانگی کے متعلق تھی۔ ©۔ میری قبر پر میلہ اور جشن نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔ ©۔ نماز کی حفاظت اور ماتحت عملے پر نرمی کی وصیت تھی۔ (فتح الباري:169/8)