تشریح:
1۔ یہ واقعہ وفات سے چار دن پہلے کا ہے۔ جب بیماری نے شدت اختیار کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قلم دوات لاؤ میں تمھیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔‘‘ اس امر کی بجا آوری پر اختلاف ہوا۔ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کہتے تھے کہ آپ پر شدت درد کا غلبہ ہے، قرآن ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہمیں کافی ہے اور کچھ حضرات کہتے تھے کہ سامان کتابت لے آؤ تاکہ دستاویز لکھ دی جائے۔
2۔ دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قرائن سے معلوم کر لیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ امر وجوب کے لیے نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اختلاف کے باوجود رسول اللہ ﷺ ضرور اس کے مطابق عمل کرتے جبکہ اس کے بعد آپ چار دن زندہ رہے ہیں۔ ان بقیہ ایام میں جو حضرات سامان کتابت لانے کی خواہش رکھتے تھے انھوں نے بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔ رسول اللہﷺ نے بھی حضرت عمر ؓ کی رائے کا انکار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کر کے اس کے درست ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے حضرت عمر ؓ کی قوت فہم اور وقت نظر کا پتہ چلتا ہے۔ انھیں بھی قرائن سے پتہ لگ گیا تھا کہ یہ دستاویز ضروری نہیں۔ اگر ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس اختلاف کی وجہ سے اسے نظر انداز نہ کرتے۔ (فتح الباري:168/8)