تشریح:
1۔ اس جگہ حدث سے مراد حدث اصغر (بے وضو ہونا) ہے حدث اکبر، یعنی جنابت وغیرہ مراد نہیں, حضرت ابوہریرہ ؓ نے مذکورہ روایت میں حدث سے یہی مراد لیا ہے۔ (حدیث 176) بعض نے کہا ہے کہ یہاں عام معنی مراد ہے، یعنی جب تک وہاں کوئی تکلیف دہ معاملہ نہ کرے۔ چنانچہ حدیث مسلم سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔’’جب تک بے وضو نہ ہو، جب تک کسی کو تکلیف نہ دے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:506 (649)) لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ریح کا خارج کرنا ہے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب تک وہ حدث کے ذریعے سے کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنے۔ (صحیح البخاري،الصلاة، حدیث:477) 2۔ یہ فضیلت ہر اس شخص کے لیے ہے جو نماز ادا کرکے دوسری نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھا رہتا ہے۔ اپنے گھر نہیں جاتا، اس لیے مصلی سے مراد جائے سجود ہی نہیں بلکہ تمام مسجد ہے۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ انسان اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ دوسری نماز کے انتظار میں ہے، اس لیے دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔ (فتح الباري:1/697) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مسجد میں ریح کا خارج کرنا تھوکنے سے زیادہ سنگین ہے، کیونکہ مسجد میں تھوکنے کا کفارہ بیان ہوا ہے کہ اس کو دفن کردیا جائے۔ لیکن اس کا کوئی کفارہ نہیں، بلکہ فرشتوں کی دعائے رحمت سے بھی اسے محروم کردیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:1/697) لیکن یہ سنگین جرم اس صورت میں قراردیا جائے گا جب حدث سے مراد کوئی گناہ یا بدعت کا ارتکاب ہو، بصورت دیگر اسے سنگین جرم قراردینا صحیح نہیں، اگرچہ اس فعل سے فرشتوں کی دعا حاصل نہیں ہوتی ۔ بہر حال مسجد میں یہ فعل خلاف اولیٰ ضرور ہے حرام یا ناجائز نہیں۔ واللہ أعلم۔