تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کی تعمیر کچی اینٹوں سے ہوئی، چھت پر کھجور کی شاخیں اور ستونوں کے لیے کھجور کے تنے استعمال کیے گئے۔ احادیث میں اشارات ملتے ہیں کہ فتح خیبر کے بعد اس کے رقبے میں کچھ تو سیع کی گئی، لیکن دوران تعمیر میں جو سامان استعمال کیا گیا وہ پہلے جیسا ہی تھا۔ حضرت عمر ؓ کے عہد میں اگرچہ مال و دولت کی فراوانی تھی اس کے باوجود انھوں نے اس کے طول و عرض یا قبلے کی جانب دو صفوں کا اضافہ کیا، لیکن سامان تعمیر اور انداز تعمیر وہی برقرار رکھا جو پہلے تھا، یعنی کچی اینٹیں کھجور کی شاخوں کی چھت اور اس کے تنوں کے ستون وغیرہ لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں سامان تعمیر اورانداز تعمیر دونوں میں تبدیلی آئی۔ انھوں نے اپنی گرہ سے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے حجرات کو خرید کر مسجد میں شامل کر دیا اور مسجد کے طول و عرض میں اضافہ فرمایا، اس کے علاوہ کچی اینٹوں کی جگہ نقش دار پتھر انھیں جوڑنے کے لیے چونا استعمال ہوا اور ستون بھی پتھروں کے بنائے گئے، چھت پر کھجور کی شاخوں کے بجائے سا گوان کی کٹریاں استعمال کی گئیں۔ حضرت عثمان ؓ کے اس مخلصانہ عمل پر اعتراضات بھی ہوئے جن کے متعلق انھیں منبر پر کھڑے ہو کر جواب دہی کرنی پڑی۔ ہم ان کی وضاحت حدیث نمبر4500 میں کریں گے۔ بہر حال مسجد کے طول و عرض میں بقدر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کی مضبوطی کے لیے بہترین اور قیمتی ساز و سامان استعمال کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں اور سادگی کی رعایت کرتے ہوئے اسی پر شکوہ اورعالی شان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ 2۔ محدث ابن منیرؒ نے کہا ہے کہ جب لوگ اپنے ذاتی مکانات پختہ بنانے لگیں اور اس کی زیبائش و آرائش پر روپیہ خرچ کرنے لگیں تو ایسے حالات میں اگر مساجد کی تعمیر میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں تاکہ مساجد کی اہانت نہ ہو۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر مسجد کی زیب و زینت نہ کرنے کی وجہ صرف سلف صالحین کی پیروی ہو تو پھر یہ موقف صحیح ہے، لیکن اگر نقش و نگار کو نظر انداز کرنے کی علت یہ ہو کہ اس قسم کی زیبائش و آرائش نمازی کے خشوع وخضوع میں خلل انداز ہوتی ہو تو پھر اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري:700/1) لیکن ہم اس حقیقت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس پر فتن دور میں لوگوں نے مساجد کی تزئین و آرائش پر بہت توجہ دے رکھی ہے بالخصوص محراب اور اس کے دائیں بائیں آئینہ اور رنگین ٹائیلوں کا استعمال پھر پیش بہا فانوس اسی زمرے میں آتے ہیں جن سےرسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، بلا شبہ مسجد میں تعمیر مضبوط بنیادوں پر ہونی چاہیے، نیز اسےشاندار اور پُر شوکت بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ لیکن تزیین پر روپیہ صرف کرنا اسراف و تبذیر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ مساجد کی تزیین کا سلسلہ ولید بن عبدالملک بن مروان سے شروع ہوا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا آخری دور تھا، متعدد اہل علم اس وقت اندیشہ فتنے کی بنا پر خاموش رہے۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس تزیین و آرائش کے متعلق اظہار ناپسندیدگی اس بنا پر تھا کہ اس سے دنیا میں انہماک اور غلو آجاتا ہے جس سے انسان آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ مساجد کی تزیین کے متعلق حضرت عمر ؓ سے ممانعت منقول ہے۔ آپ نے شاید اس واقعے سے استنباط فرمایا ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی منقش چادر واپس کردی تھی اور فرمایا تھا کہ اس نے مجھے میری نماز سے غافل کردیا تھا۔ (شرح ابن بطال:97/2) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس اس کے متعلق کوئی خاص ہدایت موجود ہو، کیونکہ سنن ابن ماجہ میں روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں بدعملی پھیلتی ہے تو وہ اپنی عبادت گاہوں کو بڑی زیب و زینت سے سجانا شروع کردیتے ہیں، لیکن اس کی سند میں جبارہ بن مغلس راوی ایسا ہے جس کے متعلق آئمہ جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري:689/1) تاہم پہلے زمانے میں اگر مسلمان سلاطین وامراء مساجد عالی شان اور پختہ نہ بناتے تو آج بلا د کفر میں ان کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا، جیسا کہ جامع قرطبہ مآثر اندلس اور مساجد ہندوستان وغیرہ ہیں، اگرچہ بلا د کفر میں یہ مساجد مسلمانوں کی نوحہ خوانی کرتی ہیں، تاہم ان کا باقی رہنا اس بات کی علامت ہے کہ کبھی ان مقامات پر اسلام کا بول بالا تھا اور آج مسلمانوں کی پست ہمتی کی وجہ سے وہاں کفار قابض ہیں۔ (إنااللہ وإناإلیه راجعون) بعض مسلمان سلاطین نے ان تمام تغیرات کو جو عہد نبوی عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں ہوئے نشانات لگا کر ممتاز کردیا ہے اس کے بعد جو تعمیری تبدیلیاں آئی ہیں وہ ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہیں۔ البتہ ترکی کا انداز تعمیر رنگ سے ممتاز کردیا گیا ہے موجودہ دور میں حکومت سعودیہ نے مسجد نبوی کی عمارت اس قدر طویل وعریض کردی ہے کہ اسے دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتاہے اور بےساختہ دل سے اس حکومت کے دوام کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور قیامت کے دن ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے، لیکن دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی مساجد جن کے مینارتو آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں، مگر یہ مساجد تو حید و سنت کی آبیاری اور حقیقی اسلام کی سر بلندی سے عاری اور نمازیوں سے خالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان مساجد کو توحید و سنت کے مرکز بنائے اور نمازیوں سے آباد فرمائے۔ آمین!