قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ بُنْيَانِ المَسْجِدِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «كَانَ سَقْفُ المَسْجِدِ مِنْ جَرِيدِ [ص:97] النَّخْلِ» وَأَمَرَ عُمَرُ بِبِنَاءِ المَسْجِدِ وَقَالَ: «أَكِنَّ النَّاسَ مِنَ المَطَرِ، وَإِيَّاكَ أَنْ تُحَمِّرَ أَوْ تُصَفِّرَ فَتَفْتِنَ النَّاسَ» وَقَالَ أَنَسٌ: «يَتَبَاهَوْنَ بِهَا ثُمَّ لاَ يَعْمُرُونَهَا إِلَّا قَلِيلًا» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتِ اليَهُودُ وَالنَّصَارَى»

446. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ المَسْجِدَ كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَبْنِيًّا بِاللَّبِنِ، وَسَقْفُهُ الجَرِيدُ، وَعُمُدُهُ خَشَبُ النَّخْلِ، فَلَمْ يَزِدْ فِيهِ أَبُو بَكْرٍ شَيْئًا، وَزَادَ فِيهِ عُمَرُ: وَبَنَاهُ عَلَى بُنْيَانِهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّبِنِ وَالجَرِيدِ وَأَعَادَ عُمُدَهُ خَشَبًا، ثُمَّ غَيَّرَهُ عُثْمَانُ فَزَادَ فِيهِ زِيَادَةً كَثِيرَةً: وَبَنَى جِدَارَهُ بِالحِجَارَةِ المَنْقُوشَةِ، وَالقَصَّةِ وَجَعَلَ عُمُدَهُ مِنْ حِجَارَةٍ مَنْقُوشَةٍ وَسَقَفَهُ بِالسَّاجِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ابوسعید نے کہا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ عمر ؓ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں اور مسجدوں پر سرخ ( لال )، زرد رنگ، مت کرو کیونکہ اس سے لوگ فتنہ میں پڑ جائیں گے۔ انس ؓ نے فرمایا کہ ( اس طرح پختہ بنوانے سے ) لوگ مساجد پر فخر کرنے لگیں گے۔ مگر ان کو آباد بہت کم لوگ کریں گے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تم بھی مساجد کی اسی طرح زبیائش کرو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے کی۔تشریح : حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب  فرماتے ہیں کہ مسجد کی رنگ آمیزی اورنقش ونگار دیکھ کر نماز میں نمازی کا خیال بٹ جائے گا۔ اس اثر کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجدنبوی کے باب میں نکالا۔ ابن ماجہ نے حضرت عمر ؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ کسی قوم کا کام اس وقت تک نہیں بگڑا جب تک اس نے اپنی مسجدوں کو آراستہ نہیں کیا۔ اکثرعلماءنے مساجد کی بہت زیادہ آرائش کو مکروہ جانا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک تونمازیوں کا خیال نماز سے ہٹ جاتاہے اوردوسرا پیسے کا بیکار ضائع کرنا ہے۔ جب مساجد کا نقش و نگار بے فائدہ مکروہ اور منع ہو توشادی غمی میں روپیہ اڑانا اورفضول رسمیں کرنا کب درست ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اورجو پیسہ ملے اس کو نیک کاموں اوراسلام کی ترقی کے سامان میں صرف کریں۔ مثلاً دین کی کتابیں چھپوائیں۔ غریب طالب علموں کی خبرگیری کریں۔ مدارس اورسرائے بنوائیں۔ مساکین اورمحتاجوں کو کھلائیں، ننگوں کو کپڑے پہنائیں۔ یتیموں اوربیواؤں کی پرورش کریں۔

446.

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی، چھت پر کھجور کی ڈالیاں تھیں اور ستون بھی کھجور کی لکڑی کے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس میں توسیع ضرور کی لیکن عمارت اسی طرح کی رکھی جیسے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھی، یعنی کچی اینٹیں، ڈالیں اور ستون اس کھجور کی لکڑی کے بنائے گئے۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے اس میں تبدیلی کر کے بہت توسیع فرمائی، یعنی اس کی دیواریں منقش پتھروں اور چونے سے بنوائیں، ستون بھی منقش پتھروں کے بنائے اور اس کی چھت ساگوان سے تیار کی۔