Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Sleeping of a men in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوقلابہ نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ عکل نامی قبیلہ کے کچھ لوگ ( جو دس سے کم تھے ) نبی ﷺ کی خدمت میں آئے، وہ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر نے فرمایا کہ صفہ میں رہنے والے فقراء لوگ تھے۔تشریح : اس حدیث کوخود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لفظ سے باب المحاربین میں بیان کیاہے۔ اوریہ سائبان یاصفہ میں رہنے والے وہ لوگ تھے جن کا گھر بار کچھ نہ تھا۔ یہ ستر آدمی تھے۔ ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور یہ دارالعلوم محمدی کے طلبائے کرام تھے۔( ؓ )۔
446.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے جب کہ وہ غیر شادی شدہ جوان تھے اور ان کا گھر بار نہیں تھا۔
تشریح:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نکاح سے پہلے ان کا گھر مسجد ہی تھا اور آپ وہیں سوتے تھے۔ (صحیح البخاري، التعبیر،حدیث: 7028) حضرت ابن عمر ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کوشش کی کہ رہنے کے لیے جھونپڑی بنا لوں، مگر افسوس کہ مخلوق میں سے کسی نے میری مدد نہ کی۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث:4162) اس لیے وہ مسافر سے بھی زیادہ مسجد میں اقامت گزیں ہونے کے حقدار تھے۔ واضح رہے کہ ان جزوی واقعات سے مسجد میں سونے کی اجازت کو ثابت کیا جا رہا ہے۔ ان سے مراد میں سونے کی ترغیب نہیں، کیونکہ یہ اجازت صرف ضرورت کے پیش نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
436
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
440
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
440
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
440
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں سونے کی ممانعت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ مسجد میں صرف نمازی کو انتظار کے دوران میں سونے کی اجازت ہے اس کے علاوہ سونے کو وہ مکروہ خیال کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہر حال مسجد میں سونے کی ممانعت منقول ہے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرق کرتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس جائے سکونت نہیں تو اسے مسجد میں سونے کی اجازت ہے بصورت دیگر نہیں ۔ ان تمام اختلافات کے باوجود جمہور علماء جواز ہی کے قائل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے میں جمہور کی تائید کی ہے کہ مردوں کے لیے ضرورت کے وقت مسجد میں سونے کی اجازت ہے۔( فتح الباری:1/693۔)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے دو تعلیقات ذکر کی ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تعلیق پہلے گزر چکی ہے۔( صحیح البخاری الوضو، حدیث 233۔)اس میں ہے کہ قبیلہ عکل کے ان نودار لوگوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسافر کے لیے مسجد میں رہنا سونا جائز ہے دوسری تعلیق اصحاب صفہ کے متعلق ہے جسے مفصل طور پر آئندہ بیان کیا جائے گا۔( صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ حدیث 602۔)واضح رہے کہ صفہ مسجد نبوی کا وہ حصہ تھا جہاں سائبان پڑا ہوا تھا جہاں غریب اور نادار طالبان حدیث فروکش تھے۔معلوم ہوا کہ ایسے بے سہارا لوگوں کو مسجد میں مستقل طور پر رہنے کی اجازت ہے۔
اور ابوقلابہ نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ عکل نامی قبیلہ کے کچھ لوگ ( جو دس سے کم تھے ) نبی ﷺ کی خدمت میں آئے، وہ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر نے فرمایا کہ صفہ میں رہنے والے فقراء لوگ تھے۔تشریح : اس حدیث کوخود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لفظ سے باب المحاربین میں بیان کیاہے۔ اوریہ سائبان یاصفہ میں رہنے والے وہ لوگ تھے جن کا گھر بار کچھ نہ تھا۔ یہ ستر آدمی تھے۔ ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور یہ دارالعلوم محمدی کے طلبائے کرام تھے۔( ؓ )۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے جب کہ وہ غیر شادی شدہ جوان تھے اور ان کا گھر بار نہیں تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نکاح سے پہلے ان کا گھر مسجد ہی تھا اور آپ وہیں سوتے تھے۔ (صحیح البخاري، التعبیر،حدیث: 7028) حضرت ابن عمر ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کوشش کی کہ رہنے کے لیے جھونپڑی بنا لوں، مگر افسوس کہ مخلوق میں سے کسی نے میری مدد نہ کی۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث:4162) اس لیے وہ مسافر سے بھی زیادہ مسجد میں اقامت گزیں ہونے کے حقدار تھے۔ واضح رہے کہ ان جزوی واقعات سے مسجد میں سونے کی اجازت کو ثابت کیا جا رہا ہے۔ ان سے مراد میں سونے کی ترغیب نہیں، کیونکہ یہ اجازت صرف ضرورت کے پیش نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوقلابہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عکل قبیلے کے کچھ لوگ نبی ﷺکے پاس آئے، وہ صفہ میں رہتے تھے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر کہتے ہیں: صفہ والے تنگ دست اور فقیر لوگ تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبیداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ کو نافع نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ وہ اپنی نوجوانی میں جب کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے نبی کریم ﷺ کی مسجد میں سویا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ادب کے ساتھ بوقت ضرورت جوانوں بوڑھوں کے لیے مسجد میں سونا جائز ہے۔ صفہ مسجد نبوی کے سامنے ایک سایہ دار جگہ تھی۔ جوآج بھی مدینہ منورہ جانے والے دیکھتے ہیں، یہاں آپ ﷺ سے تعلیم حاصل کرنے والے رہتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Naf'a (RA): 'Abdullah bin 'Umar said: I used to sleep in the mosque of the Prophet (ﷺ) while I was young and unmarried.