تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو رسول اللہ ﷺ کی بیماری اور آپ کی وفات کے حالات میں بیان کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے وفات سے دو دن پہلے ہفتے کے روز لشکر کو تیار کیا تھا جبکہ آپ کی وفات پیر کے دن ہوئی آپ نے حضرت اسامہ ؓ کو امیر لشکر بنا كر شام کی طرف روانہ فرمایا۔ چونکہ حضرت اسامہ ؓ کے والد گرامی حضرت زید ؓ اسی سر زمین میں شہید ہوئے تھے۔ اس لیے آپ نے حضرت اسامہ ؓ کی دلجوئی فرمائی تاکہ وہ اپنے والد کے قاتلوں سے دل کھول کر لڑیں۔
2۔ دراصل رومی حکومت کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے زندہ رہنے کا حق تسلیم کرے۔ اگر وہاں کوئی انسان مسلمان ہو جاتا تو اس کی جان محفوظ نہ ہوتی۔ اس حکومت کا غرور توڑنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے صفر 11 ہجری میں ایک بڑے لشکر کی تیاری شروع فرمائی اور حضرت اسامہ ؓ کو امیر لشکر مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ بلقاء اور روم کا علاقہ سواروں کے ذریعے سے روند آؤ۔ اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کو خوف زدہ کر کے ان کی حدود پر واقع عرب قبائل کا اعتماد بحال کیا جائے اور کسی کو یہ تصور کرنے کی گنجائش نہ دی جائے۔ کہ رومیوں کے تشدد پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔
3۔ بہر حال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضرت اسامہ ؓ کے ارد گرد جمع ہو کر ان کے لشکر میں شامل ہو گئے اور لشکر روانہ ہو کر مدینہ طیبہ سے تین میل دور مقام جرف میں خیمہ زن بھی ہو گیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے متعلق تشویش ناک خبروں کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا بلکہ اللہ کے فیصلے کے انتظار میں وہیں ٹھہرنے پر مجبور ہو گیا اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ لشکر حضرت ابو بکر ؓ کے دور خلافت کی پہلی مہم قرار پائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب ابو بکر ؓ کی بیعت کی گئی تو انھوں نے حضرت اسامہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ لشکر لے کر چلے جائیں چنانچہ ان کی قیادت میں لشکر روانہ ہوا۔ وہ بیس روز چلتے رہے آخر کار رومیوں پر حملہ کیا، جس نے بھی وہاں گردن اٹھائی اسے قتل کر دیا گیا۔ ان کے مکانات اور کھیتیاں جلا دی گئیں۔ حضرت اسامہ ؓ اپنے والد حضرت زید ؓ کے سبحہ نامی گھوڑے پر سوار تھے اور غارہ میں اپنے والد کے قاتل کو جہنم واصل کیا اور مدینہ منورہ واپس آنے تک اللہ کے فضل سے ایک مسلمان بھی شہید نہ ہوا، حضرت ابو بکر ؓ نے مہاجرین اور اہل مدینہ کے ہمراہ ان کا مدینہ طیبہ سے باہر استقبال کیا۔ (عمدة القاري:406/12)