Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Sleeping of a men in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوقلابہ نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ عکل نامی قبیلہ کے کچھ لوگ ( جو دس سے کم تھے ) نبی ﷺ کی خدمت میں آئے، وہ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر نے فرمایا کہ صفہ میں رہنے والے فقراء لوگ تھے۔تشریح : اس حدیث کوخود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لفظ سے باب المحاربین میں بیان کیاہے۔ اوریہ سائبان یاصفہ میں رہنے والے وہ لوگ تھے جن کا گھر بار کچھ نہ تھا۔ یہ ستر آدمی تھے۔ ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور یہ دارالعلوم محمدی کے طلبائے کرام تھے۔( ؓ )۔
447.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی ؓ کو گھر میں نہ پا کر ان سے پوچھا: ’’تمہارے چچا زاد کہاں گئے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہمارے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا، وہ مجھ سے ناراض ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں، انھوں نے میرے ہاں قیلولہ نہیں کیا (یہاں نہیں سوئے۔) رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’دیکھو وہ کہاں ہیں؟‘‘ وہ دیکھ کر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ مسجد میں تشریف لے گئے جہاں حضرت علی ؓ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹنے کی وجہ سے وہاں مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کے جسم سے مٹی صاف کرتے ہوئے فرمانے لگے: ’’ابوتراب اٹھو! ابوتراب اٹھو!۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونے کا جواز صرف ان لوگوں کے لیے ہی نہیں جو بے گھر اور مسافر ہوں بلکہ جن کے پاس معقول جائے سکونت ہو وہ بھی اگرکسی مصلحت کے پیش نظر مسجد میں سونا چاہیں تواس میں تنگی نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی ؓ کا گھر بار موجود تھا، اس کے باوجود وہ مسجد میں آکر سوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس موقع پر مسجد میں سونے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ایک مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی دلجوئی فرمائی۔ ممکن ہے امام بخاری ؒ حدیث علی اس لیے لائے ہوں کہ گھر بار والے حضرات کو مستقل طور پر مسجد میں شب باشی نہیں کرنی چاہیے، البتہ کسی ضرورت کی وجہ سے عارضی طور پر دوپہر کے وقت آرام کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ 2۔ چونکہ زمین پر لیٹنے کی وجہ سے حضرت علی ؓ کے بدن پر مٹی کچھ زیادہ ہی لگ گئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے خود اپنےدست مبارک سے اس مٹی کو صاف کیا، اس مناسبت سے آپ نے حضرت علی ؓ کو ’’ابوتراب‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔ عربی زبان میں تراب مٹی کوکہتے ہیں۔ حضرت علی ؓ کو اگر کوئی اس کنیت سے یاد کرتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6204) رسول اللہ ﷺ اس انداز گفتگو سے اس ناگواری کو دورکرنا چاہتے تھے جو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے درمیان درآئی تھی، نیز اس واقعے سے رشتہ مصاہرت میں مدارات کی اہمیت کا بھی پتہ چلتاہے۔ 3۔ حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ کے چچازاد نہ تھے، کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابوطالب کے بیٹے تھے۔ اس میں عرب کے محاورے کےمطابق باپ کے عزیز رشتے دارکو چچازاد کہاگیاہے۔ رسول اللہ ﷺ اس قریبی رشتے داری کے حوالے سے حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے خاوند سے حسن سلوک اور نرم رویہ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تیرے چچازاد، یعنی شوہر نامدار کہاں ہیں؟عرض کیا:وہ مسجد میں ہیں۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3703) پھر آپ نے راوی حدیث حضرت سہل بن سعد ؓ کو بھیجا کہ وہ مسجد میں ان کا پتہ کرکے آئیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں؟کیونکہ اس وقت حضرت سہل کے علاوہ اور کوئی دوسراشخص آپ کے ہمراہ نہیں تھا۔ وہ گئے تو دیکھا کہ حضرت علی ؓ دوپہر کے وقت مسجد کی دیوار کے سائے تلے لیٹے ہوئے ہیں۔ (فتح الباري:693/1) اس حدیث سے اسلامی معاشرے کے خدوخال کا پتہ چلتا ہے کہ اس پاکیزہ ماحول میں اگرخاوند کی بیوی سے کسی بات پر چپقلش ہوجاتی تو بیوی کو مارپیٹ کر گھرسے نکالنے کے بجائے خاوند خود ہی’’قہردرویش برجان درویش‘‘ وہاں سے کنارہ کش ہوجاتا۔ وہ کسی ہوٹل، پارک، ویڈیو سنٹر، انٹرنیٹ کلب یادیگر تفریحی مقامات کا رخ نہ کرتا بلکہ مسجد ہی کو اپنی ’’احتجاج گاہ‘‘ قراردے لیتا۔ اللہ تعالیٰ ان سےراضی ہواور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین !
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
437
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
441
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
441
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
441
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں سونے کی ممانعت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ مسجد میں صرف نمازی کو انتظار کے دوران میں سونے کی اجازت ہے اس کے علاوہ سونے کو وہ مکروہ خیال کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہر حال مسجد میں سونے کی ممانعت منقول ہے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرق کرتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس جائے سکونت نہیں تو اسے مسجد میں سونے کی اجازت ہے بصورت دیگر نہیں ۔ ان تمام اختلافات کے باوجود جمہور علماء جواز ہی کے قائل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے میں جمہور کی تائید کی ہے کہ مردوں کے لیے ضرورت کے وقت مسجد میں سونے کی اجازت ہے۔( فتح الباری:1/693۔)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے دو تعلیقات ذکر کی ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تعلیق پہلے گزر چکی ہے۔( صحیح البخاری الوضو، حدیث 233۔)اس میں ہے کہ قبیلہ عکل کے ان نودار لوگوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسافر کے لیے مسجد میں رہنا سونا جائز ہے دوسری تعلیق اصحاب صفہ کے متعلق ہے جسے مفصل طور پر آئندہ بیان کیا جائے گا۔( صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ حدیث 602۔)واضح رہے کہ صفہ مسجد نبوی کا وہ حصہ تھا جہاں سائبان پڑا ہوا تھا جہاں غریب اور نادار طالبان حدیث فروکش تھے۔معلوم ہوا کہ ایسے بے سہارا لوگوں کو مسجد میں مستقل طور پر رہنے کی اجازت ہے۔
اور ابوقلابہ نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ عکل نامی قبیلہ کے کچھ لوگ ( جو دس سے کم تھے ) نبی ﷺ کی خدمت میں آئے، وہ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر نے فرمایا کہ صفہ میں رہنے والے فقراء لوگ تھے۔تشریح : اس حدیث کوخود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لفظ سے باب المحاربین میں بیان کیاہے۔ اوریہ سائبان یاصفہ میں رہنے والے وہ لوگ تھے جن کا گھر بار کچھ نہ تھا۔ یہ ستر آدمی تھے۔ ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور یہ دارالعلوم محمدی کے طلبائے کرام تھے۔( ؓ )۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی ؓ کو گھر میں نہ پا کر ان سے پوچھا: ’’تمہارے چچا زاد کہاں گئے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہمارے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا، وہ مجھ سے ناراض ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں، انھوں نے میرے ہاں قیلولہ نہیں کیا (یہاں نہیں سوئے۔) رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ’’دیکھو وہ کہاں ہیں؟‘‘ وہ دیکھ کر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ مسجد میں تشریف لے گئے جہاں حضرت علی ؓ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹنے کی وجہ سے وہاں مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کے جسم سے مٹی صاف کرتے ہوئے فرمانے لگے: ’’ابوتراب اٹھو! ابوتراب اٹھو!۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونے کا جواز صرف ان لوگوں کے لیے ہی نہیں جو بے گھر اور مسافر ہوں بلکہ جن کے پاس معقول جائے سکونت ہو وہ بھی اگرکسی مصلحت کے پیش نظر مسجد میں سونا چاہیں تواس میں تنگی نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی ؓ کا گھر بار موجود تھا، اس کے باوجود وہ مسجد میں آکر سوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس موقع پر مسجد میں سونے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ایک مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی دلجوئی فرمائی۔ ممکن ہے امام بخاری ؒ حدیث علی اس لیے لائے ہوں کہ گھر بار والے حضرات کو مستقل طور پر مسجد میں شب باشی نہیں کرنی چاہیے، البتہ کسی ضرورت کی وجہ سے عارضی طور پر دوپہر کے وقت آرام کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ 2۔ چونکہ زمین پر لیٹنے کی وجہ سے حضرت علی ؓ کے بدن پر مٹی کچھ زیادہ ہی لگ گئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے خود اپنےدست مبارک سے اس مٹی کو صاف کیا، اس مناسبت سے آپ نے حضرت علی ؓ کو ’’ابوتراب‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔ عربی زبان میں تراب مٹی کوکہتے ہیں۔ حضرت علی ؓ کو اگر کوئی اس کنیت سے یاد کرتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6204) رسول اللہ ﷺ اس انداز گفتگو سے اس ناگواری کو دورکرنا چاہتے تھے جو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے درمیان درآئی تھی، نیز اس واقعے سے رشتہ مصاہرت میں مدارات کی اہمیت کا بھی پتہ چلتاہے۔ 3۔ حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ کے چچازاد نہ تھے، کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابوطالب کے بیٹے تھے۔ اس میں عرب کے محاورے کےمطابق باپ کے عزیز رشتے دارکو چچازاد کہاگیاہے۔ رسول اللہ ﷺ اس قریبی رشتے داری کے حوالے سے حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے خاوند سے حسن سلوک اور نرم رویہ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تیرے چچازاد، یعنی شوہر نامدار کہاں ہیں؟عرض کیا:وہ مسجد میں ہیں۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3703) پھر آپ نے راوی حدیث حضرت سہل بن سعد ؓ کو بھیجا کہ وہ مسجد میں ان کا پتہ کرکے آئیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں؟کیونکہ اس وقت حضرت سہل کے علاوہ اور کوئی دوسراشخص آپ کے ہمراہ نہیں تھا۔ وہ گئے تو دیکھا کہ حضرت علی ؓ دوپہر کے وقت مسجد کی دیوار کے سائے تلے لیٹے ہوئے ہیں۔ (فتح الباري:693/1) اس حدیث سے اسلامی معاشرے کے خدوخال کا پتہ چلتا ہے کہ اس پاکیزہ ماحول میں اگرخاوند کی بیوی سے کسی بات پر چپقلش ہوجاتی تو بیوی کو مارپیٹ کر گھرسے نکالنے کے بجائے خاوند خود ہی’’قہردرویش برجان درویش‘‘ وہاں سے کنارہ کش ہوجاتا۔ وہ کسی ہوٹل، پارک، ویڈیو سنٹر، انٹرنیٹ کلب یادیگر تفریحی مقامات کا رخ نہ کرتا بلکہ مسجد ہی کو اپنی ’’احتجاج گاہ‘‘ قراردے لیتا۔ اللہ تعالیٰ ان سےراضی ہواور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین !
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوقلابہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عکل قبیلے کے کچھ لوگ نبی ﷺکے پاس آئے، وہ صفہ میں رہتے تھے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر کہتے ہیں: صفہ والے تنگ دست اور فقیر لوگ تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے، انھوں نے سہل بن سعد ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ حضرت علی ؓ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے کہا کہ علی ؓ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ حضرت علی ؓ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فر رہے تھے: اٹھو ابوتراب اٹھو۔
حدیث حاشیہ:
تراب عربی میں مٹی کو کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ازراہِ محبت لفظ ابوتراب سے بلایا بعد میں یہی حضرت علی ؓ کی کنیت ہوگئی اورآپ اپنے لیے اسے بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے چچازاد بھائی تھے، مگرعرب کے محاورہ میں باپ کے عزیزوں کو بھی چچا کا بیٹا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے دل میں حضرت علی ؓ کی محبت پیدا کرنے کے خیال سے اس طرز سے گفتگو فرمائی۔ میاں بیوی میں گاہے گاہے باہمی ناراضگی ہونا بھی ایک فطری چیز ہے۔ مگر ایسی خفگی کو دل میں جگہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے خانگی زندگی تلخ ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے مسجد میں سونے کا جواز نکلا۔ یہی حضرت امام بخاریؒ کا مقصدہے جس کے تحت آپ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا۔ جو لوگ عام طور پر مسجدوں میں مردوں کے سونے کو ناجائز کہتے ہیں، ان کا قول صحیح نہیں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sa'd (RA): Allah's Apostle (ﷺ) went to Fatima's house but did not find 'Ali there. So he asked, "Where is your cousin?" She replied, "There was something between us and he got angry with me and went out. He did not sleep (mid-day nap) in the house." Allah's Apostle (ﷺ) asked a person to look for him. That person came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! He (Ali) is sleeping in the mosque." Allah's Apostle (ﷺ) went there and 'Ali was lying. His upper body cover had fallen down to one side of his body and he was covered with dust. Allah's Apostle (ﷺ) started cleaning the dust from him saying: "Get up! O Aba Turab. Get up! O Aba Turab (literally means: O father of dust).