قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عِكْرِمَةُ: جَبْرَ وَمِيكَ وَسَرَافِ: عَبْدٌ، إِيلْ: اللَّهُ .

4480. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ بِقُدُومِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْوَ فِي أَرْضٍ يَخْتَرِفُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَا يَنْزِعُ الْوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي بِهِنَّ جِبْرِيلُ آنِفًا قَالَ جِبْرِيلُ قَالَ نَعَمْ قَالَ ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنْ الْمَلَائِكَةِ فَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنْ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ نَزَعَتْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ وَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ يَبْهَتُونِي فَجَاءَتْ الْيَهُودُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ فِيكُمْ قَالُوا خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَسَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا قَالَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَقَالُوا شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَانْتَقَصُوهُ قَالَ فَهَذَا الَّذِي كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ عکرمہ نے کہا کہ الفاظ جبر،‏‏‏‏ وميك ‏‏‏‏ اور سراف تینوں کے معنی بندہ کے ہیں اور لفظ إيل عبرانی زبان میں الله‏ کے معنی میں ہے۔

4480.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے۔ وہ اسی وقت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: میں آپ سے ایسی تین باتیں پوچھتا ہوں جنہیں نبی کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے؟ اہل جنت کی دعوت کے لیے سب سے پہلے کیا چیز پیش کی جائے گی؟ اور بچہ اپنی ماں یا اپنے باپ کے ہم شکل کب ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے ابھی جبریل ان باتوں کی خبر دے گئے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن سلام ؓ بولے: جبریل؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: وہ تو فرشتوں میں سے یہود کے دشمن ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’جو کوئی جبریل کا دشمن ہے تو اسی نے اس قرآن کو اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اتارا ہے۔‘‘ (پھر آپ نے ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ) قیامت کی سب سے پہلی نشانی آگ ہو گی جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر لائے گی۔ اہل جنت کی مہمانی کے لیے جو کھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے کلیجے کا ایک اضافی حصہ ہو گا۔ اور جب مرد کا پانی رحم مادر میں پہلے پہنچے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب ماں کا پانی رحم میں پہلے پہنچ جائے تو بچہ ماں کی صورت پر ہوتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی سیدنا عبداللہ بن سلام ؓ کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! یہود بہت بہتان تراش قوم ہے۔ اگر میرے متعلق کچھ پوچھنے سے پہلے انہیں میرے اسلام لانے کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ پر بہتان طرازی سے باز نہیں آئیں گے۔ اتنے میں چند یہودی آئے تو نبی ﷺ نے ان سے دریافت کیا: ’’عبداللہ بن سلام تمہارے ہاں کیسا آدمی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگے: ہم میں سب سے بہتر اور سب سے بہتر باپ کے بیٹے، ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر عبداللہ بن سلام اسلام لے آئیں تو پھر ان کے متعلق تمہارا کیا خیال ہو گا؟‘‘ یہودی کہنے لگے: اللہ تعالٰی انہیں اسلام لانے سے اپنی پناہ میں رکھے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ (فورا) سامنے آئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر یہودی کہنے لگے: یہ ہم میں سب سے بدتر اور سب سے بدتر شخص کا بیٹا ہے اور ان کی توہین شروع کر دی۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔