تشریح:
1۔ مقام ابراہیم کی تفسیرمیں مختلف اقوال ہیں۔ راجح یہ ہے کہ اس سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ کی تعمیرکی تھی اور جواب تک موجود ہے۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم ؑ کے قدم مبارک کے نشانات ہیں۔ اب اس پتھر کو ایک شیشے کے گلوب میں محفوظ کردیا گیا ہے جسے ہرحاجی اور عمرہ کرنے والا بآسانی دیکھ سکتا ہے۔
2۔ طواف مکمل کرنے کے بعد اس مقام پر دورکعت پڑنے کا حکم ہے یہ پہلے بیت اللہ سے متصل تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے زمانے تک اپنے پہلے مقام پر رہا۔ حضرت عمر ؓ نے جب دیکھا کہ اس سے طواف کرنے والوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے تو انھوں نے اسے پیچھے ہٹا دیا۔ واضح رہے کہ بیت اللہ میں مقام ابراہیم کی جگہ مصلیٰ تھا مگر صد افسوس! کہ تقلید شخصی سے متاثرین نے کعبے کو تقسیم کر کے اس میں چار مصلے قائم کر دیے اور اس طرح امت مسلمہ چار حصوں میں بٹ گئی۔ جب ایک مصلے والے نماز پڑھتے تو دوسرے کھڑے رہتے اور وہ نماز میں شریک نہ ہوتے، فراغت کے بعد وہ اپنی نماز ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ حکومت سعودیہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے جس نے پھر اسلام اور کعبے کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے امت مسلمہ کو ایک ہی مصلے پر جمع کردیا۔ باقی مصلوں کو ختم کر کے امت مسلمہ کو گروہ بندیوں اور فتراق سے محفوظ کردیا۔
3۔ قرآن کریم کی تقریباً پندرہ آیات ہیں جو سیدنا عمر ؓ کی رائے کے موافق نازل ہوئیں۔ انھیں "موافقات عمر" کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی بنا پر حضرت عمرؓ کے متعلق فرمایا: "عمر کی زبان پر حق بولتا ہے۔'' (سنن أبي داود، الخراج، حدیث:2962) نیز رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "پہلی امتوں میں محدث اور بلہم لوگ ہوتے تھے میری امت میں عمر محدث ہیں۔" (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبيﷺ حدیث:3689) اس حدیث میں تین مقامات کا ذکر ہے کسی عدد کا ذکر کرنا زائد کے لیے مانع نہیں ہوتا۔ اگرچہ حکم الٰہی حضرت عمرؓ نے جب حضرت انس ؓ سے گفتگو کی تو اس وقت ابھی تین مواقع پر موافقت ہوئی ہو باقی موافقات اس کے بعد وقوع پذیرہوئی ہوں۔ (عمدة القاري:428/12) واللہ اعلم۔