تشریح:
1۔ مسلمانوں کے لیے جب بیت اللہ قبلہ بنا تو مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ برپاہو گیا۔ اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کردیں اور مختلف قسم کے شبہات پھیلانا شروع کردیے۔ ایسی فضا ختم کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ کرنے کے لیے کہ بیت اللہ اب ان کا ہمیشہ کے لیے قبلہ ہو گیا ہے ضرورت تھی کہ مختلف انداز میں یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا: "سفر وحضر میں آپ کہیں بھی ہوں نماز میں اپنا رخ کعبے کی طرف کریں۔" چونکہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے بھی تھا اس لیے امت اسلامیہ کو خطاب کر کے فرمایا: "تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو نماز میں مسجد حرام کی طرف رخ کرو۔" پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے لیے فرمایا: "بیت المقدس سے کعبے کی طرف تحویل قبلہ اللہ کی طرف سے ہے۔" اس کے بعد تقریباً سب دشمنان اسلام کی زبانیں بند ہو گئیں سوائے چند ظالموں کے جنھیں کوئی نہ کوئی بات بتاتے رہنا تھا۔ واللہ اعلم۔
2۔ تحویل قبلہ کے متعلق جامع تبصرہ:۔ تحویل قبلہ پر مشتمل احادیث کی مناسبت سے ہم قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری ؒ کا ایک جامع تبصرہ نقل کر رہے ہیں جو انھوں نے اپنی مایہ ناز کتاب "رحمۃ العالمین" میں تحویل کے متعلق رقم فرمایا ہے۔ نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جس بارہ میں کوئی حکم الٰہی موجود نہ ہوتا، اس میں آپ اہل کتاب سے موافقت فرمایاکرتے۔ نماز آغاز نبوت ہی میں فرض ہو چکی تھی مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا، اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی ﷺ نے بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رکھا۔ مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل جاری رہا مگر ہجرت کے دوسرے سال یا سترہ ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق نیا حکم نازل فرمایا۔ یہ حکم نبی ﷺ کی دلی منشا کے موافق تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنائی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم ؑ تھے۔ جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے "کعبہ" اور صرف عبادت الٰہی کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے "بیت اللہ" اور عظمت و حرمت کی وجہ سے "مسجد الحرام" کہا جاتا تھا۔ اس کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا۔ وہ یہ ہے۔ (ا) اللہ تعالیٰ کو جملہ جہات سے یکساں نسبت ہے، مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے۔ (البقرہ2/115) (ب) عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف کا مقرر کر لینا طبقات مردم میں شائع رہا ہے (ہر صاحب مذہب نے کوئی جہت ضرور مقرر کی ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے۔) (البقرہ:2/148) (ج) کسی طرف منہ کرلینا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ (ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں نہیں۔)(البقرہ:177/2) (د) تعیین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اسے متبعین رسول کے لیے ایک ممیز علامت قرار دیا جائے تاکہ ہمیں پتہ چل جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا سچا تابع فرمان کون ہے؟ اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے، (البقرہ:143/2) یہی وجہ تھی کہ جب تک رسول اللہ ﷺ مکہ میں رہے اس وقت بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا کیونکہ مشرکین مکہ بیت المقدس کی عظمت کے قائل نہ تھے اور کعبہ تو انھوں نے خود ہی اپنا بڑا معبد بنا رکھا تھا۔ اس لیے شرک چھوڑدینے اور اسلام قبول کرنے کی بین (واضح) علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرے۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو وہاں زیادہ یہودی یا عیسائی تھے وہ مسجد حرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ خود "بیت ایل یا ہیکل" تسلیم کرتے ہی تھے اس لیے مدینہ طیبہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان بننے کی علامت یہ قرراپائی کہ مسجد الحرام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے۔ حکم الٰہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرارپائی۔ اس مسجد کو قبلہ قراردینے کی وجہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان کر دی ہے۔ "اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے اور تمام دنیا کے لیے برکت والا اور باعث ہدایت ہے۔'' (البقرہ:127/2) اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام دنیا کی سب سے اولین عمارت ہے جو خالص عبادت الٰہی کے لیے بنائی گئی ہے۔ چونکہ اسے تقدم زمانی اور تاریخی عظمت حاصل ہے، اس لیے اسے قبلہ بنایا جانا مناسب ہے۔ اس کے بانی حضرت ابراہیمؑ ہیں : "اور اسماعیل ؑ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔" (آل عمران:96/3) اور حضرت ابراہیم ؑ ہی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے جد اعلیٰ ہیں اس لیے ان شاندار قوموں کے پدربزگوارکی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کو اتحاد نسبی و جسمانی کی یاد دلا کر اتحاد روحانی کے لیے متحد بن جانے کا پیغام سنا دینا تھا۔ "ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔'' (البقرة:208/2۔ ماخوذ از رحمۃ العالمین:199/1)