تشریح:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص مرجائے اور وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں جائے گا اور جو شخص مرجائے اور وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو وہ جہنم میں جائے گا۔" (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:269(93)) جب دونوں جملے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے آخری جملے کی نسبت اپنی طرف کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے صرف پہلا جملہ ہی سنا ہو یا سنا ہو تو بھول گئے ہوں، دونوں صورتوں میں انھوں نے خود قرآن وحدیث سے استنباط فرمایا ہو کہ سبب کی نفی سے مسبب کی نفی ہوجائے گی کیونکہ جب دوزخ میں جانے کا سبب بہ ہوگا تو جنت کے علاوہ اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اسے داخل کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں ہے کہ مشرک کا جہنم میں داخل ہونا مومن کے جنت میں جانے کو مستلزم ہے۔ یہ مفہوم مخالف نہیں بلکہ لازم معنی ہیں۔
2۔ بہرحال دونوں باتوں کا مطلب یہی ہے کہ توحید پر مرنے والے ضرور جنت میں داخل ہوں گے۔ اور شرک پر مرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ شرک سے مراد قبروں، مزاروں اورتعزیوں کو پوجنا ہے جس طرح کافر بتوں کو پوجتے تھے اس طرح دونوں قسم کے لوگ اللہ کے ہاں مشرک ہیں۔ معمولی سا شرک بھی بہت بڑا گناہ اورناقابل معافی جرم ہے، لہذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود کو توحید پر کاربندر کھے اور شرک سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ واللہ المستعان۔