تشریح:
1۔ حضرت انس بن نضر ؓ نے جو کہا کہ ربیع ؓ کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، یہ انکار کے طور پر نہیں تھا کیونکہ ایسا کرنا تو صریح کفر ہے بلکہ انھوں نے خبر دی تھی کہ اللہ کے فضل وکرم سے ربیع کے دانت کبھی نہیں توڑے جائیں گے بلکہ وہ معافی یا تاوان پر راضی ہوجائیں گے۔ اگرچہ بظاہر اس کی اُمید نہ تھی لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ لڑکی کے ورثاء کے دل یکدم موم ہوگئے اور وہ قصاص سے دستبردار ہوگئے اور انھوں نے ربیع کو معاف کردیا۔
2۔ واقعی اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کا اللہ پر توکل اور عزم صمیم وہ کام کرجاتا ہے کہ اہل دنیا دیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص معاف کردینے اوردیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتا ہے تو وہ پہلے قاتل سے بڑا مجرم ہے۔ ایسے انسان کا قتل کرنا واجب ہے۔ اس کا معاملہ ورثاء کے حوالے نہیں کیا جائے گا، البتہ مندرجہ ذیل صورتیں قانون قصاص سے مستثنیٰ ہیں: الف۔ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گاب۔ مسلمان کو کسی ذمی کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ج۔ والدین کو اولاد کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔