قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ، وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ، فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ، وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 184] )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عَطَاءٌ: «يُفْطِرُ مِنَ المَرَضِ كُلِّهِ، كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى» وَقَالَ الحَسَنُ، وَإِبْرَاهِيمُ: «فِي المُرْضِعِ أَوِ الحَامِلِ، إِذَا خَافَتَا عَلَى أَنْفُسِهِمَا أَوْ وَلَدِهِمَا تُفْطِرَانِ ثُمَّ تَقْضِيَانِ، وَأَمَّا الشَّيْخُ الكَبِيرُ إِذَا لَمْ يُطِقِ الصِّيَامَ فَقَدْ أَطْعَمَ أَنَسٌ بَعْدَ مَا كَبِرَ عَامًا أَوْ عَامَيْنِ، كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأَفْطَرَ» قِرَاءَةُ العَامَّةِ: {يُطِيقُونَهُ} [البقرة: 184]: وَهْوَ أَكْثَرُ

4505. حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلَا يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ لَا يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا فَيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ہر بیماری میں روزہ نہ رکھنا درست ہے۔ جیسا کہ عام طور پر اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔ اور امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ دودھ پلانے والی یا حامل کو اگر اپنی یا اپنے بیٹے کی جان کا خوف ہو تو وہ افطار کر لیں اور پھر اس کی قضاء کر لیں لیکن بوڑھا ضعیف شخص جب روزہ نہ رکھ سکے تو وہ فدیہ دے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی جب بوڑھے ہو گئے تھے تو وہ ایک سال یا دو سال رمضان میں روزانہ ایک مسکین کو روٹی اور گوشت دیا کرتے تھے اور روزہ چھوڑ دیا تھا۔ اکثر لوگوں نے اس آیت میں يطيقونه پڑھا ہے (جو اطاق يطيق سے ہے)۔جس کے معنی یہ ہیں جو لوگ روزے کی طاقت نہیں رکھ سکتے جیسے بوڑھا ضعیف بعضوں نے کہا کہ لفظ لا یہاں مقدر ہے عطاء کے اثر کو عبدارزاق نے وصل کیا ہے کہتے ہیں حضرت انس بن مالکؓ نے ایک سو تین یا ایک سو دس برس کی عمر پائی تھی۔

4505.

حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے سنا، وہ یوں قراءت کرتے تھے: ﴿وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلَا يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ﴾ ''یعنی وہ لوگ جو بمشقت روزہ رکھتے ہیں وہ (ہر روزے کے بدلے) ایک مسکین کو بطور فدیہ کھانا کھلائیں۔'' حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے اور اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا انتہائی بوڑھی عورت ہے جو روزے کی طاقت نہ رکھتے ہوں انہیں چاہئے کہ وہ ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔