تشریح:
1۔ (فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ) کی قراءت میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فدیہ کی اضافت اور مساکین کو جمع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص روزہ نہ رکھے اس کے ذمے مساکین کے کھانے کا فدیہ ہے۔ امام نافع ؒ اور ذکوان نے بھی اسی طرح پڑھا ہے لیکن جمہور قراء نے (فِدْيَةٌ) کو تنوین (مِسْكِينٍ) کو مفرد کے صیغے سے پڑھا ہے اور(طَعَامُ) کو اس لیے مرفوع پڑھا گیا ہے کہ یہ فدیہ سے بدل واقع ہورہا ہے۔
2۔ حضرت ابن عمر ؓ کے نزدیک فدیہ دینے کی مذکورہ صورت منسوخ ہے۔ ان کے نزدیک فدیے کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا جبکہ لوگ روزے کے ابھی عادی نہیں ہوئے تھے۔ جب لوگ اس کے عادی ہوگئے تو اس رعایت کو ختم کردیا گیا۔ اس کی ناسخ اگلی آیت ہے: "جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔" (البقرة:185/2)
3۔ کچھ حضرات مذکورہ آیت کو ناسخ اور اسے پہلی آیت کو منسوخ نہیں کہتے بلکہ دونوں آیات کو محکم قراردیتے ہیں۔ وہ پہلی آیت کے متعلق مندرجہ ذیل دوتوجہیں کرتے ہیں:*۔ ( يُطِيقُونَهُ) سے پہلے لامحذوف ہے معنی اس طرح ہیں: "جو لوگ اس روزے کی طاقت نہیں رکھتے وہ بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیں۔" *۔خاصیات ابواب میں باب افعال کا ایک خاصہ سلب مآخذ ہے۔ (يُطِيقُونَهُ) میں بھی یہی کارفرما ہے، معنی اس طرح ہیں: "جن لوگوں سے روزہ رکھنے کی طاقت ختم ہوچکی ہے وہ بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا دیں۔" ان دونوں توجہیوں پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح مسلوب طاقت کو یوں کیوں کہا گیا: "اگرتم سمجھوتو تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھو۔" (البقرة:185/2)