Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Al-Hadath (passing wind) in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
451.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر رہو جہاں تم نے نماز پڑھی تھی اور ریاح بھی خارج نہ کرو تو ملائکہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کی مغفرت فر دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔‘‘
تشریح:
1۔ اس جگہ حدث سے مراد حدث اصغر (بے وضو ہونا) ہے حدث اکبر، یعنی جنابت وغیرہ مراد نہیں, حضرت ابوہریرہ ؓ نے مذکورہ روایت میں حدث سے یہی مراد لیا ہے۔ (حدیث 176) بعض نے کہا ہے کہ یہاں عام معنی مراد ہے، یعنی جب تک وہاں کوئی تکلیف دہ معاملہ نہ کرے۔ چنانچہ حدیث مسلم سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔’’جب تک بے وضو نہ ہو، جب تک کسی کو تکلیف نہ دے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:506 (649)) لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ریح کا خارج کرنا ہے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب تک وہ حدث کے ذریعے سے کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنے۔ (صحیح البخاري،الصلاة، حدیث:477) 2۔ یہ فضیلت ہر اس شخص کے لیے ہے جو نماز ادا کرکے دوسری نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھا رہتا ہے۔ اپنے گھر نہیں جاتا، اس لیے مصلی سے مراد جائے سجود ہی نہیں بلکہ تمام مسجد ہے۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ انسان اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ دوسری نماز کے انتظار میں ہے، اس لیے دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔ (فتح الباري:1/697) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مسجد میں ریح کا خارج کرنا تھوکنے سے زیادہ سنگین ہے، کیونکہ مسجد میں تھوکنے کا کفارہ بیان ہوا ہے کہ اس کو دفن کردیا جائے۔ لیکن اس کا کوئی کفارہ نہیں، بلکہ فرشتوں کی دعائے رحمت سے بھی اسے محروم کردیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:1/697) لیکن یہ سنگین جرم اس صورت میں قراردیا جائے گا جب حدث سے مراد کوئی گناہ یا بدعت کا ارتکاب ہو، بصورت دیگر اسے سنگین جرم قراردینا صحیح نہیں، اگرچہ اس فعل سے فرشتوں کی دعا حاصل نہیں ہوتی ۔ بہر حال مسجد میں یہ فعل خلاف اولیٰ ضرور ہے حرام یا ناجائز نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
441
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
445
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
445
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
445
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مازری کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں ان لوگوں کا رد کرنا چاہتے ہیں جنھوں نے جنبی کی طرح بے وضو کے لیے مسجد میں داخل ہونے یا بیٹھنے کو ممنوع قراردیا ہے۔( فتح الباری:1/696۔)لیکن ہمارے نزدیک اس باب کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں بدبو دار اشیاء لے جانا ممنوع ہے اور ریح بھی بد بو دار ہوتی ہے نیز ایسا کرنا بے ادبی اور مسجد کے احترام کے منافی ہےاس کے علاوہ فرشتوں کے لیے بھی باعث تکلیف ہے اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے لیکن اگر مسجد کے اندر ریح خارج کرنے کی ضرورت پڑجائے تو ایسا کرنا جائز ہے اگرچہ یہ خلاف اولیٰ ہے مگر معتکف اس سے مستثنیٰ ہوگا۔کیونکہ وہ مسجد میں رہنے کا پابند ہے۔حوائج ضرور یہ کے علاوہ اس کے لیے مسجد سے باہر جانے پر پابندی ہے اس لیے مسجد میں اس طرح کا حدث (بے وضو ہونا)اس کے لیے قابل معافی ہونا چاہیے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک تم اپنے مصلے پر رہو جہاں تم نے نماز پڑھی تھی اور ریاح بھی خارج نہ کرو تو ملائکہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کی مغفرت فر دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس جگہ حدث سے مراد حدث اصغر (بے وضو ہونا) ہے حدث اکبر، یعنی جنابت وغیرہ مراد نہیں, حضرت ابوہریرہ ؓ نے مذکورہ روایت میں حدث سے یہی مراد لیا ہے۔ (حدیث 176) بعض نے کہا ہے کہ یہاں عام معنی مراد ہے، یعنی جب تک وہاں کوئی تکلیف دہ معاملہ نہ کرے۔ چنانچہ حدیث مسلم سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔’’جب تک بے وضو نہ ہو، جب تک کسی کو تکلیف نہ دے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:506 (649)) لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ریح کا خارج کرنا ہے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب تک وہ حدث کے ذریعے سے کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنے۔ (صحیح البخاري،الصلاة، حدیث:477) 2۔ یہ فضیلت ہر اس شخص کے لیے ہے جو نماز ادا کرکے دوسری نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھا رہتا ہے۔ اپنے گھر نہیں جاتا، اس لیے مصلی سے مراد جائے سجود ہی نہیں بلکہ تمام مسجد ہے۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ انسان اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ دوسری نماز کے انتظار میں ہے، اس لیے دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں۔ (فتح الباري:1/697) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مسجد میں ریح کا خارج کرنا تھوکنے سے زیادہ سنگین ہے، کیونکہ مسجد میں تھوکنے کا کفارہ بیان ہوا ہے کہ اس کو دفن کردیا جائے۔ لیکن اس کا کوئی کفارہ نہیں، بلکہ فرشتوں کی دعائے رحمت سے بھی اسے محروم کردیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:1/697) لیکن یہ سنگین جرم اس صورت میں قراردیا جائے گا جب حدث سے مراد کوئی گناہ یا بدعت کا ارتکاب ہو، بصورت دیگر اسے سنگین جرم قراردینا صحیح نہیں، اگرچہ اس فعل سے فرشتوں کی دعا حاصل نہیں ہوتی ۔ بہر حال مسجد میں یہ فعل خلاف اولیٰ ضرور ہے حرام یا ناجائز نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہ کہا ہمیں مالک نے ابوالزناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک تم اپنے مصلے پر جہاں تم نے نماز پڑھی تھی، بیٹھے رہو اور ریاح خارج نہ کرو تو ملائکہ تم پر برابر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’ اے اللہ! اس کی مغفرت کیجیئے، اے اللہ! اس پر رحم کیجیے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حدث ( ہوا خارج ) ہونے کی بدبو سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور وہ اپنی دعا موقوف کردیتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسجد میں جہاں تک ممکن ہو باوضو بیٹھنا افضل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The angels keep on asking Allah's forgiveness for anyone of you, as long as he is at his Mu,salla (praying place) and he does not pass wind (Hadath). They say, 'O Allah! Forgive him, O Allah! Be Merciful to him."