قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ ]الخ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4514. وَزَادَ عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي فُلَانٌ وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ تَحُجَّ عَامًا وَتَعْتَمِرَ عَامًا وَتَتْرُكَ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَدْ عَلِمْتَ مَا رَغَّبَ اللَّهُ فِيهِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ إِيمَانٍ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالصَّلَاةِ الْخَمْسِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَدَاءِ الزَّكَاةِ وَحَجِّ الْبَيْتِ قَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ قَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ قَالَ فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا قَتَلُوهُ وَإِمَّا يُعَذِّبُونَهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ

مترجم:

4514.

حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ابو عبدالرحمٰن! کیا وجہ ہے کہ آپ ایک سال حج کرتے ہیں اور دوسرے سال عمرے کے لیے جاتے ہیں، نیز آپ نے جہاد فی سبیل اللہ ترک کر رکھا ہے، حالانکہ آپ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے اس کے متعلق کس قدر رغبت دلائی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد تو پانچ چیزوں پر ہے: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکاۃ ادا کرنا اور حج کرنا۔ اس نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں اللہ کا ارشاد گرامی آپ کو معلوم نہیں: "اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر ان دونوں میں سے کوئی جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرتی ہے تو تم سب اس کے خلاف لڑو جو جماعت زیادتی کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔" (اور اللہ تعالٰی کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے:) "تم ان کے خلاف جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو جائے۔" حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ہم یہ فرض ادا کر چکے ہیں۔ اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے۔ انسان اپنے دین کے بارے میں آزمائش سے دوچار ہوتا تھا۔ مخالفین اسے قتل کر دیتے یا سنگین سزا دے دوچار کر دیتے۔ اب اسلام بڑھ چکا ہے اور وہ فتنہ و فساد باقی نہیں رہا۔