تشریح:
1۔ حامیان حکومت نے حضرت ابن عمر ؓ کے سامنے قرآنی آیت سے یہ استدلال کرنا چاہا کہ باغی مسلمانوں سے لڑنا جائز ہے۔ چونکہ آپ عظیم شخصیت ہیں، اس لیے آپ اس سلسلے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا مؤقف یہ تھا کہ باغی لوگوں سے لڑنے کے لیے عدد اور تیاری کی ضرورت ہے۔ وہ افراد اور اسلحہ میرے پاس نہیں ہے کہ میں ان سے قتال کروں، اس لیے تو میں نے تو سکوت اور تسلیم ورضا کا راستہ اختیار کرکے کنارہ کشی کرلی ہے، رہا فتنے کا خاتمہ تو ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اسےنیست ونابود کرچکے ہیں۔ اب تو کرسی واقتدار کے لیے قتال باقی رہ گیاہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ 2۔ اس خارجی نے مسلمانوں کی اس جنگ کو جہاد کفار کے برابر کردیا۔اگرچہ باغی مسلمانوں سے قتال جائز ہے لیکن وہ جہاد کفار کےبرابر ہرگز نہیں ہے۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے اس مؤقف پر آخری وقت تک کاربند رہے، چنانچہ وہ اپنی ہمشیرہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے کہنے کے باوجود واقعہ تحکیم میں شامل نہ ہوئے۔