تشریح:
1۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگراللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے خرچ نہیں کروگے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے تو یہ تمہارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہوگا اورآخرت میں بھی باعث بربادی ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا میں تم کفار کے ہاتھوں مغلوب ہوکر ذلیل وخوار ہوگے اور آخرت میں تم سے اس کے متعلق سخت باز پرس ہوگی۔
2۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ اس آیت کا پس منظر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمان بہت ہوگئے تو ہم نے کہا: اب ہم گھروں میں رہ کر اپنے مال ومتاع کو درست کریں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی تہلکہ سے مراد گھروں میں رہنا اور جہاد کو ترک کردینا ہے۔ (تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن:588/3، 589۔ وشعب الإیمان:408/5) حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں: یہ آیت اس شخص کےبارے میں نازل ہوئی جو گناہ پر گناہ کیے جاتا ہے پھر کہتا ہے کہ میرے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ اس طرح وہ ہلاکت کے گڑھے میں خود کو گرادیتاہے۔ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث:2512)
3۔ کچھ حضرات کا خیال ہےکہ یہ آیت انصار کے متعلق نازل ہوئی کہ وہ خوب صدقہ وخیرات کرتے تھے، ایک مرتبہ وہ قحط سالی میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے خرچ کرنا چھوڑدیا اور بخل سے کام لینے لگے، اس پر اللہ تعالیٰ نے انھیں تنبیہ فرمائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ سب صورتیں ہلاکت کی ہیں، جہاد چھوڑدینا یا جہاد میں اپنا مال خرچ نہ کرنا یقینا ایسے کردار ہیں جن سے دشمن طاقتور ہوگا اور مسلمان کمزور ہوں گے جس کا نتیجہ تباہی اور بربادی ہے۔ (فتح الباري:233/8)