Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The construction of (the prophet's pbuh) mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوسعید نے کہا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ عمر ؓ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں اور مسجدوں پر سرخ ( لال )، زرد رنگ، مت کرو کیونکہ اس سے لوگ فتنہ میں پڑ جائیں گے۔ انس ؓ نے فرمایا کہ ( اس طرح پختہ بنوانے سے ) لوگ مساجد پر فخر کرنے لگیں گے۔ مگر ان کو آباد بہت کم لوگ کریں گے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تم بھی مساجد کی اسی طرح زبیائش کرو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے کی۔تشریح : حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب فرماتے ہیں کہ مسجد کی رنگ آمیزی اورنقش ونگار دیکھ کر نماز میں نمازی کا خیال بٹ جائے گا۔ اس اثر کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجدنبوی کے باب میں نکالا۔ ابن ماجہ نے حضرت عمر ؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ کسی قوم کا کام اس وقت تک نہیں بگڑا جب تک اس نے اپنی مسجدوں کو آراستہ نہیں کیا۔ اکثرعلماءنے مساجد کی بہت زیادہ آرائش کو مکروہ جانا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک تونمازیوں کا خیال نماز سے ہٹ جاتاہے اوردوسرا پیسے کا بیکار ضائع کرنا ہے۔ جب مساجد کا نقش و نگار بے فائدہ مکروہ اور منع ہو توشادی غمی میں روپیہ اڑانا اورفضول رسمیں کرنا کب درست ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اورجو پیسہ ملے اس کو نیک کاموں اوراسلام کی ترقی کے سامان میں صرف کریں۔ مثلاً دین کی کتابیں چھپوائیں۔ غریب طالب علموں کی خبرگیری کریں۔ مدارس اورسرائے بنوائیں۔ مساکین اورمحتاجوں کو کھلائیں، ننگوں کو کپڑے پہنائیں۔ یتیموں اوربیواؤں کی پرورش کریں۔
452.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی، چھت پر کھجور کی ڈالیاں تھیں اور ستون بھی کھجور کی لکڑی کے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس میں توسیع ضرور کی لیکن عمارت اسی طرح کی رکھی جیسے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھی، یعنی کچی اینٹیں، ڈالیں اور ستون اس کھجور کی لکڑی کے بنائے گئے۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے اس میں تبدیلی کر کے بہت توسیع فرمائی، یعنی اس کی دیواریں منقش پتھروں اور چونے سے بنوائیں، ستون بھی منقش پتھروں کے بنائے اور اس کی چھت ساگوان سے تیار کی۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کی تعمیر کچی اینٹوں سے ہوئی، چھت پر کھجور کی شاخیں اور ستونوں کے لیے کھجور کے تنے استعمال کیے گئے۔ احادیث میں اشارات ملتے ہیں کہ فتح خیبر کے بعد اس کے رقبے میں کچھ تو سیع کی گئی، لیکن دوران تعمیر میں جو سامان استعمال کیا گیا وہ پہلے جیسا ہی تھا۔ حضرت عمر ؓ کے عہد میں اگرچہ مال و دولت کی فراوانی تھی اس کے باوجود انھوں نے اس کے طول و عرض یا قبلے کی جانب دو صفوں کا اضافہ کیا، لیکن سامان تعمیر اور انداز تعمیر وہی برقرار رکھا جو پہلے تھا، یعنی کچی اینٹیں کھجور کی شاخوں کی چھت اور اس کے تنوں کے ستون وغیرہ لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں سامان تعمیر اورانداز تعمیر دونوں میں تبدیلی آئی۔ انھوں نے اپنی گرہ سے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے حجرات کو خرید کر مسجد میں شامل کر دیا اور مسجد کے طول و عرض میں اضافہ فرمایا، اس کے علاوہ کچی اینٹوں کی جگہ نقش دار پتھر انھیں جوڑنے کے لیے چونا استعمال ہوا اور ستون بھی پتھروں کے بنائے گئے، چھت پر کھجور کی شاخوں کے بجائے سا گوان کی کٹریاں استعمال کی گئیں۔ حضرت عثمان ؓ کے اس مخلصانہ عمل پر اعتراضات بھی ہوئے جن کے متعلق انھیں منبر پر کھڑے ہو کر جواب دہی کرنی پڑی۔ ہم ان کی وضاحت حدیث نمبر4500 میں کریں گے۔ بہر حال مسجد کے طول و عرض میں بقدر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کی مضبوطی کے لیے بہترین اور قیمتی ساز و سامان استعمال کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں اور سادگی کی رعایت کرتے ہوئے اسی پر شکوہ اورعالی شان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ 2۔ محدث ابن منیرؒ نے کہا ہے کہ جب لوگ اپنے ذاتی مکانات پختہ بنانے لگیں اور اس کی زیبائش و آرائش پر روپیہ خرچ کرنے لگیں تو ایسے حالات میں اگر مساجد کی تعمیر میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں تاکہ مساجد کی اہانت نہ ہو۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر مسجد کی زیب و زینت نہ کرنے کی وجہ صرف سلف صالحین کی پیروی ہو تو پھر یہ موقف صحیح ہے، لیکن اگر نقش و نگار کو نظر انداز کرنے کی علت یہ ہو کہ اس قسم کی زیبائش و آرائش نمازی کے خشوع وخضوع میں خلل انداز ہوتی ہو تو پھر اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري:700/1) لیکن ہم اس حقیقت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس پر فتن دور میں لوگوں نے مساجد کی تزئین و آرائش پر بہت توجہ دے رکھی ہے بالخصوص محراب اور اس کے دائیں بائیں آئینہ اور رنگین ٹائیلوں کا استعمال پھر پیش بہا فانوس اسی زمرے میں آتے ہیں جن سےرسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، بلا شبہ مسجد میں تعمیر مضبوط بنیادوں پر ہونی چاہیے، نیز اسےشاندار اور پُر شوکت بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ لیکن تزیین پر روپیہ صرف کرنا اسراف و تبذیر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ مساجد کی تزیین کا سلسلہ ولید بن عبدالملک بن مروان سے شروع ہوا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا آخری دور تھا، متعدد اہل علم اس وقت اندیشہ فتنے کی بنا پر خاموش رہے۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس تزیین و آرائش کے متعلق اظہار ناپسندیدگی اس بنا پر تھا کہ اس سے دنیا میں انہماک اور غلو آجاتا ہے جس سے انسان آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ مساجد کی تزیین کے متعلق حضرت عمر ؓ سے ممانعت منقول ہے۔ آپ نے شاید اس واقعے سے استنباط فرمایا ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی منقش چادر واپس کردی تھی اور فرمایا تھا کہ اس نے مجھے میری نماز سے غافل کردیا تھا۔ (شرح ابن بطال:97/2) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس اس کے متعلق کوئی خاص ہدایت موجود ہو، کیونکہ سنن ابن ماجہ میں روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں بدعملی پھیلتی ہے تو وہ اپنی عبادت گاہوں کو بڑی زیب و زینت سے سجانا شروع کردیتے ہیں، لیکن اس کی سند میں جبارہ بن مغلس راوی ایسا ہے جس کے متعلق آئمہ جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري:689/1) تاہم پہلے زمانے میں اگر مسلمان سلاطین وامراء مساجد عالی شان اور پختہ نہ بناتے تو آج بلا د کفر میں ان کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا، جیسا کہ جامع قرطبہ مآثر اندلس اور مساجد ہندوستان وغیرہ ہیں، اگرچہ بلا د کفر میں یہ مساجد مسلمانوں کی نوحہ خوانی کرتی ہیں، تاہم ان کا باقی رہنا اس بات کی علامت ہے کہ کبھی ان مقامات پر اسلام کا بول بالا تھا اور آج مسلمانوں کی پست ہمتی کی وجہ سے وہاں کفار قابض ہیں۔ (إنااللہ وإناإلیه راجعون) بعض مسلمان سلاطین نے ان تمام تغیرات کو جو عہد نبوی عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں ہوئے نشانات لگا کر ممتاز کردیا ہے اس کے بعد جو تعمیری تبدیلیاں آئی ہیں وہ ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہیں۔ البتہ ترکی کا انداز تعمیر رنگ سے ممتاز کردیا گیا ہے موجودہ دور میں حکومت سعودیہ نے مسجد نبوی کی عمارت اس قدر طویل وعریض کردی ہے کہ اسے دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتاہے اور بےساختہ دل سے اس حکومت کے دوام کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور قیامت کے دن ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے، لیکن دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی مساجد جن کے مینارتو آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں، مگر یہ مساجد تو حید و سنت کی آبیاری اور حقیقی اسلام کی سر بلندی سے عاری اور نمازیوں سے خالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان مساجد کو توحید و سنت کے مرکز بنائے اور نمازیوں سے آباد فرمائے۔ آمین!
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
442
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
446
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
446
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
446
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت مساجد بنانے کی فضیلت بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ اس کے لیے آئندہ ایک باب :85۔آرہا ہے۔اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ مسجد کس شان کی ہونی چاہیے اور بانی کے لیے کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے یعنی مسجد میں سادگی کو ملحوظ رکھا جائے۔ مسجد نماز باجماعت ادائیگی کے لیے بنائی جائے اور بنانے والے کی نیت شہرت اور نمائش کی نہ ہو بلکہ اخلاص اور اللہ کی رضا مقصود ہو۔اگر حالات تبدیل ہو جائیں تو سادگی کو برقرار رکھتے ہوئے اسے شاندار بنانے کی بھی اجازت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ تعلیقات بیان کی ہیں۔سادگی کے متعلق پہلی تعلیق کو خود ہی آئندہ باسند بیان کریں گے بلکہ اسے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے البتہ یہ الفاظ کتاب الاذان (حدیث813)میں ہیں اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تعمیر مسجد کے سلسلے میں سادگی کے اصول کو اپنانے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ابتدائی طور پر مسجد نبوی ایک چھپر کی طرح تھی اس کی چھت پر کڑیوں کی جگہ کھجور کی شاخیں تھیں۔اس سے صرف گرمی وغیرہ سے حفاظت ہوتی تھی جب بارش ہوتی تو یہ چھت ٹپکنے لگتی حتی کہ سجدے کے وقت آپ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ لگ جاتا ۔تعمیر مسجد کے سلسلے میں دوسرا اصول یہ ہے کہ سادگی کے ساتھ نمازیوں کی راحت رسانی کا بندو بست کیا جائے۔چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر رہنمائی کرتا ہے کہ انھوں نے جب اپنے عہد خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع فرمائی تو معماروں کو ہدایت فرمائی کہ میرا مقصد نمازیوں کے لیے بارش سے حفاظت کا سامان کرنا ہے اس کے لیے مختلف رنگوں کو استعمال کر کے نمازیوں کو فتنے میں مبتلا کرنا ہر گز مقصد نہیں۔تعمیر مسجد کے متعلق تیسرا رہنما اصول یہ ہے کہ اسے آباد کیا جائے۔اسے نام و نمود اور فخر و مباہات کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔اس سلسلے میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر پیش فرمایا جسے مسند یعلیٰ اور صحیح ابن خزیمہ (2/281)میں باسند بیان کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔"ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لو گ مسجد کے معاملے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے اور انھیں آباد کرنے والے بہت کم ہوں گے۔"پھر مساجد میں گلکاری کرنا اور انھیں منقش کر کے اپنا سرمایہ ضائع کرنا بھی سادگی کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر پیش فرمایا ۔ سنن ابی داؤدمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے مسجدوں کو آراستہ اور انھیں منقش کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔( سنن ابی داؤد الصلاۃ حدیث 448۔)اس میں یہ تنبیہ ہے کہ زیب و زینت کرنا یہود و نصاریٰ کا فعل ہے مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں مسجد اللہ کا گھر ہے اس میں دنیوی تکلفات اور ظاہری زیبائش کی کیا ضرورت ہے؟( فتح الباری:1/698۔) اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں موصول روایت ذکر کرتے ہیں جو حسب ذیل ہے۔
ابوسعید نے کہا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ عمر ؓ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں اور مسجدوں پر سرخ ( لال )، زرد رنگ، مت کرو کیونکہ اس سے لوگ فتنہ میں پڑ جائیں گے۔ انس ؓ نے فرمایا کہ ( اس طرح پختہ بنوانے سے ) لوگ مساجد پر فخر کرنے لگیں گے۔ مگر ان کو آباد بہت کم لوگ کریں گے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تم بھی مساجد کی اسی طرح زبیائش کرو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے کی۔تشریح : حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب فرماتے ہیں کہ مسجد کی رنگ آمیزی اورنقش ونگار دیکھ کر نماز میں نمازی کا خیال بٹ جائے گا۔ اس اثر کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجدنبوی کے باب میں نکالا۔ ابن ماجہ نے حضرت عمر ؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ کسی قوم کا کام اس وقت تک نہیں بگڑا جب تک اس نے اپنی مسجدوں کو آراستہ نہیں کیا۔ اکثرعلماءنے مساجد کی بہت زیادہ آرائش کو مکروہ جانا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک تونمازیوں کا خیال نماز سے ہٹ جاتاہے اوردوسرا پیسے کا بیکار ضائع کرنا ہے۔ جب مساجد کا نقش و نگار بے فائدہ مکروہ اور منع ہو توشادی غمی میں روپیہ اڑانا اورفضول رسمیں کرنا کب درست ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اورجو پیسہ ملے اس کو نیک کاموں اوراسلام کی ترقی کے سامان میں صرف کریں۔ مثلاً دین کی کتابیں چھپوائیں۔ غریب طالب علموں کی خبرگیری کریں۔ مدارس اورسرائے بنوائیں۔ مساکین اورمحتاجوں کو کھلائیں، ننگوں کو کپڑے پہنائیں۔ یتیموں اوربیواؤں کی پرورش کریں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا: رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی، چھت پر کھجور کی ڈالیاں تھیں اور ستون بھی کھجور کی لکڑی کے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس میں توسیع ضرور کی لیکن عمارت اسی طرح کی رکھی جیسے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھی، یعنی کچی اینٹیں، ڈالیں اور ستون اس کھجور کی لکڑی کے بنائے گئے۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے اس میں تبدیلی کر کے بہت توسیع فرمائی، یعنی اس کی دیواریں منقش پتھروں اور چونے سے بنوائیں، ستون بھی منقش پتھروں کے بنائے اور اس کی چھت ساگوان سے تیار کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کی تعمیر کچی اینٹوں سے ہوئی، چھت پر کھجور کی شاخیں اور ستونوں کے لیے کھجور کے تنے استعمال کیے گئے۔ احادیث میں اشارات ملتے ہیں کہ فتح خیبر کے بعد اس کے رقبے میں کچھ تو سیع کی گئی، لیکن دوران تعمیر میں جو سامان استعمال کیا گیا وہ پہلے جیسا ہی تھا۔ حضرت عمر ؓ کے عہد میں اگرچہ مال و دولت کی فراوانی تھی اس کے باوجود انھوں نے اس کے طول و عرض یا قبلے کی جانب دو صفوں کا اضافہ کیا، لیکن سامان تعمیر اور انداز تعمیر وہی برقرار رکھا جو پہلے تھا، یعنی کچی اینٹیں کھجور کی شاخوں کی چھت اور اس کے تنوں کے ستون وغیرہ لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں سامان تعمیر اورانداز تعمیر دونوں میں تبدیلی آئی۔ انھوں نے اپنی گرہ سے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے حجرات کو خرید کر مسجد میں شامل کر دیا اور مسجد کے طول و عرض میں اضافہ فرمایا، اس کے علاوہ کچی اینٹوں کی جگہ نقش دار پتھر انھیں جوڑنے کے لیے چونا استعمال ہوا اور ستون بھی پتھروں کے بنائے گئے، چھت پر کھجور کی شاخوں کے بجائے سا گوان کی کٹریاں استعمال کی گئیں۔ حضرت عثمان ؓ کے اس مخلصانہ عمل پر اعتراضات بھی ہوئے جن کے متعلق انھیں منبر پر کھڑے ہو کر جواب دہی کرنی پڑی۔ ہم ان کی وضاحت حدیث نمبر4500 میں کریں گے۔ بہر حال مسجد کے طول و عرض میں بقدر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کی مضبوطی کے لیے بہترین اور قیمتی ساز و سامان استعمال کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں اور سادگی کی رعایت کرتے ہوئے اسی پر شکوہ اورعالی شان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ 2۔ محدث ابن منیرؒ نے کہا ہے کہ جب لوگ اپنے ذاتی مکانات پختہ بنانے لگیں اور اس کی زیبائش و آرائش پر روپیہ خرچ کرنے لگیں تو ایسے حالات میں اگر مساجد کی تعمیر میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں تاکہ مساجد کی اہانت نہ ہو۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر مسجد کی زیب و زینت نہ کرنے کی وجہ صرف سلف صالحین کی پیروی ہو تو پھر یہ موقف صحیح ہے، لیکن اگر نقش و نگار کو نظر انداز کرنے کی علت یہ ہو کہ اس قسم کی زیبائش و آرائش نمازی کے خشوع وخضوع میں خلل انداز ہوتی ہو تو پھر اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري:700/1) لیکن ہم اس حقیقت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس پر فتن دور میں لوگوں نے مساجد کی تزئین و آرائش پر بہت توجہ دے رکھی ہے بالخصوص محراب اور اس کے دائیں بائیں آئینہ اور رنگین ٹائیلوں کا استعمال پھر پیش بہا فانوس اسی زمرے میں آتے ہیں جن سےرسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، بلا شبہ مسجد میں تعمیر مضبوط بنیادوں پر ہونی چاہیے، نیز اسےشاندار اور پُر شوکت بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ لیکن تزیین پر روپیہ صرف کرنا اسراف و تبذیر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ مساجد کی تزیین کا سلسلہ ولید بن عبدالملک بن مروان سے شروع ہوا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا آخری دور تھا، متعدد اہل علم اس وقت اندیشہ فتنے کی بنا پر خاموش رہے۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس تزیین و آرائش کے متعلق اظہار ناپسندیدگی اس بنا پر تھا کہ اس سے دنیا میں انہماک اور غلو آجاتا ہے جس سے انسان آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ مساجد کی تزیین کے متعلق حضرت عمر ؓ سے ممانعت منقول ہے۔ آپ نے شاید اس واقعے سے استنباط فرمایا ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی منقش چادر واپس کردی تھی اور فرمایا تھا کہ اس نے مجھے میری نماز سے غافل کردیا تھا۔ (شرح ابن بطال:97/2) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس اس کے متعلق کوئی خاص ہدایت موجود ہو، کیونکہ سنن ابن ماجہ میں روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں بدعملی پھیلتی ہے تو وہ اپنی عبادت گاہوں کو بڑی زیب و زینت سے سجانا شروع کردیتے ہیں، لیکن اس کی سند میں جبارہ بن مغلس راوی ایسا ہے جس کے متعلق آئمہ جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري:689/1) تاہم پہلے زمانے میں اگر مسلمان سلاطین وامراء مساجد عالی شان اور پختہ نہ بناتے تو آج بلا د کفر میں ان کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا، جیسا کہ جامع قرطبہ مآثر اندلس اور مساجد ہندوستان وغیرہ ہیں، اگرچہ بلا د کفر میں یہ مساجد مسلمانوں کی نوحہ خوانی کرتی ہیں، تاہم ان کا باقی رہنا اس بات کی علامت ہے کہ کبھی ان مقامات پر اسلام کا بول بالا تھا اور آج مسلمانوں کی پست ہمتی کی وجہ سے وہاں کفار قابض ہیں۔ (إنااللہ وإناإلیه راجعون) بعض مسلمان سلاطین نے ان تمام تغیرات کو جو عہد نبوی عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں ہوئے نشانات لگا کر ممتاز کردیا ہے اس کے بعد جو تعمیری تبدیلیاں آئی ہیں وہ ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہیں۔ البتہ ترکی کا انداز تعمیر رنگ سے ممتاز کردیا گیا ہے موجودہ دور میں حکومت سعودیہ نے مسجد نبوی کی عمارت اس قدر طویل وعریض کردی ہے کہ اسے دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتاہے اور بےساختہ دل سے اس حکومت کے دوام کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور قیامت کے دن ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے، لیکن دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی مساجد جن کے مینارتو آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں، مگر یہ مساجد تو حید و سنت کی آبیاری اور حقیقی اسلام کی سر بلندی سے عاری اور نمازیوں سے خالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان مساجد کو توحید و سنت کے مرکز بنائے اور نمازیوں سے آباد فرمائے۔ آمین!
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں: مسجد نبوی کی چھت کھجور کی ایسی شاخوں کی تھی جن کے پتے صاف کر دیے گئے تھے۔ اور حضرت عمر ؓ نے مسجد نبوی کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا کہ لوگوں کو بارش سے محفوظ رکھنے کا بندوبست کرو لیکن اسے سرخ یا زرد کرنے سے اجتناب کرو، مبادا رنگ کے استعمال سے لوگ فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: (آئندہ) لوگ مسجدیں بنانے میں بطور فخر و مباہات مقابلہ بازی کریں گے مگر انہیں (عبادت سے) آباد بہت کم لوگ کریں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم بھی مساجد کو نقش و نگار سے ضرور آراستہ کرو گے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنی عبادت گاہوں کو آراستہ کیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد ابراہیم بن سعید نے صالح بن کیسان کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے، عبداللہ بن عمر ؓ کے واسطہ سے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور ستون اسی کی کڑیوں کے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اس میں کسی قسم کی زیادتی نہیں کی۔ البتہ حضرت عمر ؓ نے اسے بڑھایا اور اس کی تعمیر رسول اللہ ﷺ کی بنائی ہوئی بنیادوں کے مطابق کچی اینٹوں اور کھجوروں کی شاخوں سے کی اور اس کے ستون بھی کڑیوں ہی کے رکھے۔ پھر حضرت عثمان ؓ نے اس کی عمارت کو بدل دیا اور اس میں بہت سی زیادتی کی۔ اس کی دیواریں منقش پتھروں اور گچھ سے بنائیں۔ اس کے ستون بھی منقش پتھروں سے بنوائے اور چھت ساگوان سے بنائی۔
حدیث حاشیہ:
مسجدنبوی زمانہ رسالت مآب ﷺ میں جب پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو اس کا طول وعرض تیس مربع گز تھا۔ پھر غزوئہ خیبر کے بعد ضرورت کے تحت اس کا طول وعرض پچاس مربع گز کردیاگیا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں مسجدنبوی کو کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے مستحکم کیا اورستون لکڑیوں کے بنائے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے پختہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ مدینہ میں آئے توآپ نے ایک حدیث نبوی سنائی کہ آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک دن میری مسجد کی تعمیر پختہ بنیادوں پر ہوگی۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ حدیث سن کر بطور خوشی حضرت ابوہریرہ ؓ کو پانچ سودینار پیش کيے۔ بعدکے سلاطین اسلام نے مسجدنبوی کی تعمیرواستحکام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موجودہ دور حکومت سعودیہ ( خلدها اللہ تعالیٰ ) نے مسجد کی عمارت کو اس قدر طویل وعریض اورمستحکم کردیاہے کہ دیکھ کر دل سے اس حکومت کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول کرے۔ احادیث و آثارکی بناپر حد سے زیادہ مساجد کی ٹیپ ٹاپ کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ یہودونصاریٰ کا دستور تھا کہ وہ اپنے مذہب کی حقیقی روح سے غافل ہوکر ظاہری زیب وزینت پر فریفتہ ہوگئے۔ یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے، جن کے مینارے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں مگرتوحید وسنت اور اسلام کی حقیقی روح سے ان کو خالی پایا جاتاہے۔ إلا ماشاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): In the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) the mosque was built of adobes, its roof of the leaves of date-palms and its pillars of the stems of date-palms. Abu Bakr (RA) did not alter it. 'Umar expanded it on the same pattern as it was in the lifetime of Allah's Apostle (ﷺ) by using adobes, leaves of date-palms and changing the pillars into wooden ones. 'Uthman changed it by expanding it to a great extent and built its walls with engraved stones and lime and made its pillars of engraved stones and its roof of teak wood.