تشریح:
1۔ قرآن مجید میں اس دعائے ربانی سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو حج کرتے وقت اپنے دنیاوی مفاد کی دعائیں کرتے اورآخرت کو بالکل نظرانداز کردیتے تھے اور ارشاد باری تعالیٰ: ’’ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار!ہمیں دنیا میں ہی سب کچھ دے دے۔ ایسےشخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔‘‘ (البقرة:200/2) مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی گئی کہ وہ دوران حج میں دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بھلائی مانگیں، اس کے لیے مذکورہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں پر مشتمل ہے اسے بکثرت پڑھتے رہنا دین ودنیا کی نعمتوں کا باعث ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اوقات یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الدعوات، حدیث:6389)
2۔ اس دعا سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ بندے کو اپنے رب سے دنیا وآخرت کی بھلائی کا سوال تو کرنا چاہیے لیکن اس بھلائی کا فیصلہ اور انتخاب اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہیے کیونکہ وہی جانتاہے کہ ہمارے لیے حقیقی خیر کس چیز میں ہے؟ لہذا بندے کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی تجویز پیش کرنے کے بجائے معاملہ اللہ تعالیٰ ہی پرچھوڑدے، چنانچہ اس انداز سے دعا کرنے والوں کے متعلق ارشادباری تعالیٰ ہے: "ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے۔" اور یہ حصہ اس اُصول کے مطابق ہوگا جو اس نے اپنے بندوں کی نیکیوں کا بدلہ دینے کے لیے مقرر کر رکھا ہے جس کی وضاحت اس نے خود قرآن میں کی ہے۔ واللہ اعلم۔