تشریح:
1۔ یہ آیت کریمہ ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اسلام کو عقیدے اور منہج زندگی کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا لیکن دنیوی مفاد کے پیش نظر اپنے مسلمان ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اپنے فعل وقول کی صداقت پر گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ باطل کو حق دکھانے کے لیے بدترین جھگڑالو ہوتا ہے۔ حدیث میں منافق کی تین نشانیاں بیان ہوئی ہیں: وہ جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتاہے، جب وہ وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ پر اترآتا ہے۔ (صحیح البخاری، الإیمان، حدیث:33)
2۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ایک دوسری سند بیان کی ہے تاکہ وہ باتوں کی صراحت ہوجائے: الف۔ یہ حدیث حقیقت کے اعتبار سے مرفوع ہے جیسا کہ جامع سفیان ثوری میں یہ موصول بیان ہوئی ہے۔ ب۔ حضرت سفیان کا اپنے استاد ابن جریج سے سماع ثابت ہے کیونکہ انھوں نے پیش کردہ روایت میں اسے بصیغہ تحدیث بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:236/8)