تشریح:
1۔ عرب لوگ یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ ان کے فوت شدہ شخص کی بیوہ کسی اور سے نکاح کرے یا وہ اس کے گھر سے نکلے اس لیے آغاز اسلام میں ان کے لیے سال بھر گھر میں رہنے اور ان کا نان و نفقہ کی وصیت کرنے کا حکم دیا گیا اس کے بعد عورت کی مدت چار ماہ دس دن مقرر کی گئی۔
2۔ مذکورہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے حضرت عثمان ؓ کو قرآن جمع کرتے وقت کہا تھا کہ آپ منسوخ آیت کو قرآن میں کیوں لکھتے ہیں؟ حضرت عثمان ؓ نےجواب دیا کہ قرآن کی کسی آیت کو اس کے مقام سے ہٹانا نہیں چاہتا اگرچہ وہ منسوخ ہی کیوں نہ ہو۔
3۔ منسوخ ہونے کے اعتبار سے آیات کی تین قسمیں ہیں۔ ©جن کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہیں ایسی آیات کو قرآن میں درج نہیں کیا گیا۔ ©جن کا حکم باقی ہے لیکن ان کی تلاوت منسوخ ہے انھیں بھی قرآن میں نہیں لکھا گیا۔ ©جن کا حکم منسوخ ہے لیکن ان کی تلاوت باقی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے اسی قسم کی آیات کے متعلق حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے فرمایا تھا: میں اپنی طرف سے کسی آیت کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا۔ ایسی آیات کے لکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاوت سے ثواب ملتا ہے حافظ ابن حجر ؒ نے اس آیت کے لکھنے کا ایک اور فائدہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہی نہیں ہوتی تو ان کے موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ آیت کسی صورت میں محو نہیں ہو سکتی۔ (فتح الباري:244/8) واللہ اعلم۔