تشریح:
1۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں آیت کے صحیح معنی یہی ہیں جو حدیث سےثابت ہو رہے ہیں یعنی قنوت سے مراد سکوت ہے، لیکن اس سکوت سے مراد مطلقاً چپ رہنا نہیں بلکہ لوگوں سے گفتگو نہ کرنا ہے بصورت دیگر نماز میں خاموش رہنا مقصود نہیں بلکہ پوری نماز تلاوت قرآن اور ذکر واذکار سے عبادت ہے۔ (فتح الباري:250/8)
2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب ما ينهى من الكلام في الصلاة) "دوران نماز میں گفتگو کرنا منع ہے۔'' (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب:2) انسان کے لیے کمال اطاعت یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز سے رک جائے جو قرب و حضور میں رکاوٹ کا باعث ہو گفتگو بھی رکاوٹ کا باعث ہوتی ہے۔ اس لیے آیت کریمہ سے نماز میں گفتگو کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔