قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَاعَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: {كُرْسِيُّهُ} [البقرة: 255]: «عِلْمُهُ»، يُقَالُ {بَسْطَةً} [البقرة: 247]: «زِيَادَةً وَفَضْلًا»، {أَفْرِغْ} [البقرة: 250]: «أَنْزِلْ»، {وَلاَ يَئُودُهُ}: «لاَ يُثْقِلُهُ، آدَنِي أَثْقَلَنِي، وَالآدُ وَالأَيْدُ القُوَّةُ» السِّنَةُ: «نُعَاسٌ» {يَتَسَنَّهْ} [البقرة: 259]: «يَتَغَيَّرْ»، {فَبُهِتَ} [البقرة: 258]: «ذَهَبَتْ حُجَّتُهُ»، {خَاوِيَةٌ} [البقرة: 259]: «لاَ أَنِيسَ فِيهَا»، {عُرُوشُهَا} [البقرة: 259]: «أَبْنِيَتُهَا» (نُنْشِرُهَا): «نُخْرِجُهَا»، {إِعْصَارٌ} [البقرة: 266]: «رِيحٌ عَاصِفٌ تَهُبُّ مِنَ الأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ، كَعَمُودٍ فِيهِ نَارٌ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {صَلْدًا} [البقرة: 264]: «لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ» وَقَالَ عِكْرِمَةُ: {وَابِلٌ} [البقرة: 264]: " مَطَرٌ شَدِيدٌ، الطَّلُّ: النَّدَى، وَهَذَا مَثَلُ عَمَلِ المُؤْمِنِ " {يَتَسَنَّهْ} [البقرة: 259]: «يَتَغَيَّرْ»ير‏

4535. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ قَالَ يَتَقَدَّمُ الْإِمَامُ وَطَائِفَةٌ مِنْ النَّاسِ فَيُصَلِّي بِهِمْ الْإِمَامُ رَكْعَةً وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ لَمْ يُصَلُّوا فَإِذَا صَلَّى الَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً اسْتَأْخَرُوا مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا وَلَا يُسَلِّمُونَ وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً ثُمَّ يَنْصَرِفُ الْإِمَامُ وَقَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَيَقُومُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ فَيُصَلُّونَ لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً بَعْدَ أَنْ يَنْصَرِفَ الْإِمَامُ فَيَكُونُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ قَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالًا قِيَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ أَوْ رُكْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَا قَالَ مَالِكٌ قَالَ نَافِعٌ لَا أُرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ذَكَرَ ذَلِكَ إِلَّا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

سعید بن جبیر نے کہا وسع کرسیہ میں کرسی سے مراد پروردگار کا علم ہے ۔ ( یہ تاویلی مفہوم ہے احتیاط اسی میں ہے کہ ظاہر معنوں میں تسلیم کرکے حقیقت کو علم الٰہی کے حوالہ کردیا جائے ) بسطۃ سے مراد زیادتی اور فضیلت ہے ۔ افرغ کا مطلب انزل ہے یعنی ہم پر صبر نازل فرما لفظ ولا یودہ کا مطلب یہ کہ اس پر بار نہیں ہے ۔ اسی سے لفظ آدنی ہے یعنی مجھ کو اس نے بوجھل بنادیا اور لفظ آد اور اید قوت کو کہتے ہیں لفظ السنۃ اونگھ کے معنی میں ہے ۔ لم یتسنہ کا معنی نہیں بگڑا لفظ فبھت کا معنی دلیل سے ہارے گا لفظ خاوی یعنی خالی جہاں کوئی رفیق نہ ہو ۔ لفظ عروشھا سے مراد اس کی عمارتیں ہیں ، ننشزھا کے معنی ہم نکالتے ہیں ۔ لفظ اعصار کے معنی تند ہوا جو زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف ایک ستون کی طرح ہو جاتی ہے ۔ اس میں آگ ہوتی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لفظ صلدا یعنی چکنا صاف جس پر کچھ بھی نہ رہے اور عکرمہ نے کہا لفظ وابل زور کے مینہ پر بولا جاتا ہے اور لفظ طل کے معنی شبنم اوس کے ہیں ۔ یہ مومن کے نیک عمل کی مثال ہے کہ وہ ضائع نہیں جاتا ۔ یتسنہکے معنی بدل جائے ، بگڑ جائے ۔حضرت امام بخاری نے اپنی روش کے مطابق سورۂ بقرہ کے یہ مختلف مشکل الفاظ منتحب فرما کر ان کے حل کرنے کی کوشش کی ہے پورے معانی و مطالب ان ہی مقامات سے متعلق ہیں جہاں جہاں یہ لفظ وارد ہوئے ہیں۔

4535.

حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے جب نماز خوف کے متعلق دریافت کیا جاتا تو فرماتے: امام، مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے اور یہ لوگ ابھی نماز میں شریک نہ ہوں۔ جب امام کے ساتھ والی جماعت ایک رکعت پڑھ لے تو سلام پھیرے بغیر پیچھے ہٹ کر ان لوگوں کی جگہ پر آ جائے جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی اور یہ لوگ آگے بڑھ کر امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کر لیں۔ پھر امام سلام پھیر دے گا، اس کی دو رکعت پوری ہو گئیں۔ اب امام کے سلام پھیرنے کے بعد دونوں گروہ اٹھ کر اپنی اپنی ایک رکعت پڑھ لیں، چنانچہ سب کی دو دو رکعت مکمل ہو جائیں گی، البتہ اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہو تو ہر شخص جیسے ممکن ہو تنہائی میں پڑھ لے پیدل یا سوار، قبلے کی طرف رُخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ حضرت نافع بیان کرتے ہیں: مجھے یقین ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ طریقہ نماز رسول اللہ ﷺ سے سن کر ہی بیان کیا ہو گا۔