تشریح:
1۔ اس شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے برھاپے میں باغ اور اس کی پیداوار کی انتہائی ضرورت ہوتی ہےاور از سر نو باغ لگانے کا موقع بھی نہیں ہوتا اور اس کے بچے کمزور ہونے کی وجہ سے اس کی مدد نہیں کر سکتے وہ تو خود اس سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں لہٰذا کوئی نیک عمل مثلاً: خیرات کرنے کے بعد اس کی پوری حفاظت کرنا بھی ضروری ہوتی ہے ایسا نہیں ہو نا چاہیے کہ احسان جتلانے بیگار لینے یا شرک کر بیٹھنے سے اپنا باغ جلا بیٹھے کہ آخرت میں اسے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ہاتھ نہ آئے جبکہ وہاں اسے اعمال کی شدید ضرورت ہو۔
2۔ اس حدیث میں شیطان کے غالب آنے سے مراد یہ ہے کہ انسان حصول مال میں اس قدر مگن ہو جائے کہ اللہ کی اطاعت سے بے پروا ہو جائے یا ایسی نا فرمانیوں مثلاً شرک و بدعت میں مبتلا ہو جائے جن سے اس کے تمام نیک اعمال ضائع ہو جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ صدقہ و خیرات پھل دار باغ کی طرح ہے کہ اس کا میوہ آخرت میں کام آئے جب نیت بری ہے ہے تو وہ باغ جل گیا پھر اس کا میوہ جو ثواب ہے کیونکر نصیب ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
3۔ حضرت عمرؓ نے عمل کے ساتھ مال دار کی قید لگا دی جو مثل لہ سے ماخوذ ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس مثال کی مزید وضاحت کے لیے ابن جریر طبری ؒ کے حوالے سے ایک روایت نقل فرمائی ہے۔ اس سے مرادعمل ہے آدمی کو باغ کی زیادہ ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب اس کی عمر ڈھل جائے اور اہل و عیال بڑھ جائیں اور بندے کو عمل کی زیادہ ضرورت اس وقت ہوگی جب قیامت کے دن اسے اٹھا یا جائے گا۔ (فتح الباري:254/8)