تشریح:
1۔ چھوٹے نیز ے کو خاص انداز سے چکر دے کر پھینکنا ایک کامیاب فن حرن ہے۔ اہل حبشہ کو اس میں خاص مہارت تھی۔ صحیح بخاری کی اصل روایت میں تو یہ وضاحت تھی کہ صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ نے جب کھیل دیکھاتو وہ مسجد میں ہورہاتھا لیکن اصل روایت میں اس بات کی وضاحت نہیں تھی کہ وہ کھیل نیزے کی فنی مشق سے متعلق تھا جبکہ عنوان میں ’’برچھے والوں کا مسجد میں آنا‘‘ بیان کیاگیاتھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے ایک راوی ابراہیم بن منذر کی روایت ذکر کردی جس میں نیزوں سے کھیلنے کی صر احت تھی۔ 2۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد چونکہ عبادت کی جگہ ہے، اس لیے جو چیزیں عبادت سے متعلق ہوں گی، صرف انھیں مسجد میں جائز ہونا چاہیے، اس کے علاوہ دوسرے کام مسجد میں جائز نہیں۔ اس قسم کے لوگوں نے مذکورہ روایت کے متعلق یہ تاثر ظاہر کیا ہے کہ اس کھیل کا مظاہرہ مسجد میں نہیں بلکہ مسجد سے باہر یا مسجد کے متعلقات میں کیا جارہا تھا۔ لیکن امام بخاری ؒ اس معاملے میں توسع کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ اسلحے کی نمائش اور فنون حرب کا مظاہرہ اگرجہاد کی نیت سے ہوتوعبادت ہے اور اس قسم کی عبادت مسجد میں کی جاسکتی ہے۔ اس روایت کے بعض طرق میں ہے کہ جب اہل حبشہ مسجد میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے تھے تو کہیں سے حضرت عمر ؓ بھی ادھر آنکلے، انھوں نے مسجد میں اس قسم کا مظاہرہ کرنے سے منع کیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے عمر ؓ ! رہنے دو۔‘‘ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث:2901) مقصد یہ ہے کہ اگر اس قسم کا کام جہاد کی تیاری اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتو اسے مسجد میں کرنے کی اجازت ہے۔ (فتح الباري:711/1) 3 ۔ حضرت مہلب ؒ نے کہا ہے:مساجد کی تعمیر دین کے اجتماعی کاموں کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ تمام کام جن سے دین اور اہل دین کی منفعت وابستہ ہو، مسجد میں کیے جاسکتے ہیں۔ نیزوں سے کھیلنا دراصل اپنی جنگی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی ایک مشق ہے، اس سے دشمن پرحملہ کرنے اور اس سے اپنا دفاع کرنے کا سلیقہ آتا ہے، اس لیے اسے مسجد میں کھیلا جاسکتاہے، نیز معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ کس درجہ حسن معاشرت کا لحاظ رکھتے تھے، مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی باتوں کوحرز جاں بنائیں اور ان کی بجاآوری کے لیے بھر پور کوشش کریں۔ (شرح ابن بطال: 104/2)