قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {قُلْ يَاأَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4553. حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى عَنْ هِشَامٍ عَنْ مَعْمَرٍ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ قَالَ انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ قَالَ وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ قَالَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَا هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأُجْلِسْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَيَّ الْكَذِبَ لَكَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ قَالَ قُلْتُ تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قَالَ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا قَالَ وَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ لَا ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يُزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمْ الْعَاقِبَةُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ كَانَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُكُمْ قَالَ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ قَالَ إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ إِلَى قَوْلِهِ اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَكَثُرَ اللَّغَطُ وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَدَعَا هِرَقْلُ عُظَمَاءَ الرُّومِ فَجَمَعَهُمْ فِي دَارٍ لَهُ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرَّشَدِ آخِرَ الْأَبَدِ وَأَنْ يَثْبُتَ لَكُمْ مُلْكُكُمْ قَالَ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَقَالَ عَلَيَّ بِهِمْ فَدَعَا بِهِمْ فَقَالَ إِنِّي إِنَّمَا اخْتَبَرْتُ شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكُمْ الَّذِي أَحْبَبْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ

مترجم:

4553.

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ابوسفیان بن حرب نے میرے روبرو یہ بیان دیا: جس مدت کے دوران میں میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان (صلح حدیبیہ کا) معاہدہ ہوا تھا، میں ان دنوں ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوا۔ جب میں ملک شام میں تھا تو نبی ﷺ کا ایک نامہ مبارک ہرقل کے پاس لایا گیا۔ حضرت دحیہ کلبی ؓ  اسے لے کر آئے تھے۔ انہوں نے لا کر عظیم بصرٰی کے حوالے کر دیا تھا اور عظیم بصرٰی نے وہ خط ہرقل کو پہنچایا۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ ہرقل نے دریافت کیا: ہماری حدود سلطنت میں اسی مدعی نبوت کی قوم کا کوئی آدمی موجود ہے؟ درباریوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے لوگوں کی معیت میں بلایا گیا۔ جب ہم ہرقل کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھا لیا اور پوچھنے لگا، یہ شخص جو خود کو نبی کہتا ہے تم میں سے کون اس کا قریبی رشتہ دار ہے؟ ابو سفیان نے کہا: میں اس کا قریبی رشتہ دار ہوں، چنانچہ درباریوں نے مجھے اس کے بالکل سامنے اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ہرقل نے ترجمان کو بلایا اور اسے کہا: ان سے کہو کہ میں اس شخص سے اس مدعی نبوت کے متعلق کچھ سوالات کروں گا۔ اگر یہ غلط بیانی کرے تو تم لوگوں نے اسے جھٹلا دینا ہے۔ ابوسفیان کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اگر غلط بیانی کرنے کی بدنامی کا مجھے ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کے متعلق ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا: وہ اونچے نسب والا ہے۔ اس نے کہا: اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: تو کیا تم اس کے دعوائے نبوت سے پہلے اسے جھوٹ سے مہتم کرتے تھے؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہنے لگا: اچھا یہ بتاؤ کہ مال دار لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا غریبوں نے؟ میں نے کہا: بلکہ اس کے پیروکار غریب و نادار ہیں۔ وہ کہنے لگا: کیا اس کے پیروکار (دن بہ دن) بڑھ رہے ہیں یا ان کی تعداد کم ہو رہی ہے؟ میں نے کہا: بلکہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کہنے لگا: کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے متنفر ہو کر مرتد بھی ہوا ہے؟ میں نے کہا: ہرگز نہیں۔ اس نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے اس سے کوئی جنگ لڑی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ وہ کہنے لگا: پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟ میں نے کہا: جنگ ہمارے اور اس کے درمیان برابر کی چوٹ ہے۔ کبھی وہ ہمیں زک پہنچا دیتا ہے اور کبھی ہم اسے نقصان سے دوچار کر دیتے ہیں۔ وہ کہنے لگا: کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، البتہ اس وقت ہم نے اس کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر رکھا ہے، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرے گا؟ ابوسفیان کہتے ہیں: مجھے اس جملے کے علاوہ اپنی طرف سے کوئی اور بات داخل کرنے کا موقع نہ ملا۔ ہرقل کہنے لگا: کیا یہ بات (دعوائے نبوت) اس سے پہلے بھی کسی نے کہی تھی؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ تم اس شخص سے کہو: میں نے تم سے اس شخص کا نسب پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ اونچے نسب کا حامل ہے۔ واقعی دستور بھی یہی ہے کہ انبیاء ؑ ہمیشہ اپنی قوم کے اونچے نسب ہی سے بھیجے جاتے ہیں۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ آیا اس کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو تم نے اس بات کا انکار کیا۔ میں کہتا ہوں: اگر اس کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنی خاندانی سلطنت کا طلب گار ہے۔ پھر میں نے تم سے اس کے پیروکاروں کی نسبت سوال کیا کہ وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا معزز حضرات؟ تمہارا جواب تھا کہ اس کی پیروی کرنے والے کمزور و ناتواں ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پیغمبروں کے پیروکار اکثر ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔ پھر میرا سوال تھا کہ تم نے کبھی اس پر دعوائے نبوت سے پہلے جھوٹ کا شبہ کیا ہے تو تمہارا جواب انکار میں تھا۔ تب میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ایسا تو ممکن نہیں کہ وہ لوگوں پر کذب بیانی سے اجتناب کرے لیکن اللہ پر جھوٹ باندھتا پھرے۔ اور میں نے تم سے یہ بھی دریافت کیا کہ کبھی کوئی شخص اس کے دین میں داخل ہو کر نفرت کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے تو تمہارا جواب نفی میں تھا۔ بہرحال ایمان چیز ہی ایسی ہے جب اس کی چاشنی دل کے نہاں خانے میں اتر جاتی ہے تو نکلتی نہیں۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا روبہ انحطاط ہیں؟ تو تم نے جواب دیا کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ واقعی ایمان کا معاملہ ایسا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ میں نے تم سے یہ بھی پوچھا کہ کبھی تمہاری اس سے جنگ ہوئی ہے؟ تم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ لڑائی تمہارے اور اس کے درمیان برابر کی چوٹ ہے۔ کبھی وہ تمہیں نقصان سے دوچار کر دیتے ہیں اور کبھی تم انہیں زِک پہنچا دیتے ہو۔ اسی طرح رسولوں کی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے لیکن آخر کار انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا: کیا اس نے کبھی بدعہدی کی ہے؟ تم نے اس کا بھی انکار کیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پیغمبر عہد شکنی نہیں کیا کرتے۔ میرا سوال تھا: آیا اس سے قبل بھی کسی نے ایسی بات کہی تھی۔ تم نے بتایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں: اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کر رہا جو اس سے قبل کہی جا چکی ہے۔ ابوسفیان نے کہا: بعد ازاں اس نے دریافت کیا: وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ میں نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکاۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ تب ہرقل نے کہا: جو کچھ تم نے اس کے متعلق بتایا ہے اگر وہ برحق ہے تو وہ یقینا نبی ہے۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے، لیکن میرا یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا۔ اگر مجھے یقین ہو کہ میں اس کے پہنچ سکوں گا تو ضرور اس سے ملاقات کو اپنے لیے سعادت خیال کرتا۔ اگر میں اس کے پاس حاضر ہو سکوں تو ضرور اس کے پاؤں دھو کر اس کی خدمت بجا لاؤں، نیز عنقریب اس شخص کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہ ﷺ کا نامہ مبارک منگوایا، اسے پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا: ’’شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد (ﷺ) کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام: اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ ا بعد! میں تجھے کلمہ اسلام (لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ) کی دعوت دیتا ہوں۔ مسلمان ہو جاؤ تو محفوظ رہو گے۔ اللہ تعالٰی تجھے دو چند اجر دے گا۔ اگر تم یہ بات نہیں مانو گے تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہو گا۔‘‘ اور "اے اہل کتاب! ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان یکساں مسلم ہے۔ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں۔۔ گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہیں۔" جب ہرقل پڑھ چکا تو دربار میں آوازیں بلند ہونے لگیں اور بہت شوروغل اٹھا اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ میں نے باہر آ کر اپنے ساتھیوں سے کہا: ابو کبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بڑا زور پکڑ گیا ہے۔ اس سے تو شاہ روم بھی خوفزدہ ہے۔ اس روز کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہ ﷺ ضرور غالب آ کر رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے میرے دل میں اسلام جاگزیں کر دیا۔ امام زہری کہتے ہیں: پھر ہرقل نے روم کے بڑے بڑے سرداروں کو دعوت دی اور انہیں اپنے ایک خاص محل میں اکٹھا کیا، پھر ان سے کہا: کیا تم اپنی کامیابی، بھلائی اور ہمیشہ کے لیے اپنی بادشاہت پر قائم رہنا چاہتے ہو؟ (تو اسلام قبول کر لو)۔ راوی کہتا ہے: یہ اعلانِ حق سنتے ہی وہ لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بدکتے ہوئے دروازوں کی طرف دوڑے۔ دیکھا تو وہ بند تھے۔ اس کے بعد ہرقل نے حکم دیا کہ انہیں میرے پاس واپس لاؤ۔ پھر اس نے ان سب کو بلا کر کہا: میں تمہارا امتحان لینا چاہتا تھا کہ اپنے دین پر کس قدر مضبوط ہو سو وہ میں دیکھ چکا ہوں۔ تمہاری یہ پختگی مجھے بہت پسند آئی۔ اس پر سب حاضرین خوش ہو گئے اور اسے سجدہ کیا۔