تشریح:
1۔ شرعی احکا م کو باطل کرنا اور انھیں چھپانا یہودیوں کی صفت ہے۔ رجم کا حکم سابقہ ملت موسوی میں بھی رائج تھا، مگر بعد کے لوگوں نے کسی مصلحت کی بنا پر اسے معطل کرچھوڑا تھا۔ اسی طرح کا ایک اورواقعہ بھی احادیث میں منقول ہے، حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک یہودی کو لے کر گزرے جبکہ اس کا چہرہ کالا کیا ہواتھا اور وہ اسے گھما پھرا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں قسم دے کر ان سے پوچھا: "تمہاری کتا ب میں زانی کی حد کیا ہے؟" انھوں نے یہ بات اپنے ایک آدمی پر ڈال دی کہ وہ بتائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے قسم دے کر پوچھا: ’’تمہاری کتاب میں زانی کی حد کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: سنگسار کرنا ہے لیکن جب ہمارے شرفاء میں زنا کاری عام ہوگئی تو ہم نے نا مناسب خیال کیا کہ صاحب حیثیت کو چھوڑدیا جائے اورغریب پر حد جاری کی جائے، سوہم نے اسے ترک کردیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اسے رجم کردیا گیا پھر آپ نے فرمایا: "اے اللہ! میں وہ پہلا شخص ہوں جو تیری کتاب کے اس حکم کو زندہ کررہا ہوں جسے انھوں نے مردہ کرچھوڑا تھا۔" (سنن أبي داود، الحدود، حدیث:4447) ایک روایت میں ہے: پھر ہم نے کہا: آؤہم کسی ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو ہم صاحب حیثیت اور کمزور سب پر نافذ کرسکیں، چنانچہ ہم منہ کالا کرنے اور دھول دھپے پرمتفق ہوگئے اور رجم کرنا چھوڑدیا۔ (سنن أبي داود، الحدود، حدیث:4448)
2۔ بہرحال رسول اللہﷺ نے رجم کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حکم کے مطابق کیا، تورات منگوا کر توان پر حجت قائم کی تھی تاکہ اللہ کا حکم زندہ ہوجائے جسے انھوں نے چھپا رکھا تھا۔ (عمدة القاري:500/12)