تشریح:
1۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ نے رسول اللہﷺ سے بھی بیان کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر تعجب کرتا ہے جو بیڑیوں میں جکڑے جنت میں داخل ہوں گے۔" (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث:3010) سیدنا عمرؓ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فرمادیتا: (اَنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ) تب ہم سب بہترین اُمت بن جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے (كُنْتُمْ) فرمایا ہے، چنانچہ یہ خصوصیت صرف اصحاب محمد ﷺ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے ساتھ ہے۔
2۔ اس تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے ہے، یعنی پوری اُمت میں سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بہترین لوگ ہیں، جبکہ حضرت ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مُراد وہ صحابہ ہیں جنھوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔ (فتح الباري:283/8) اس تفسیر کے مطابق یہ آیت مزید خاص ہوجاتی ہے۔ اس کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ صحابہ کرام میں وہ حضرات سب سے زیادہ بہترہیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس آیت کو اپنے عموم ہی پر رہنے دیا جائے اور اس سے پوری اُمت محمدیہ مراد لی جائے۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعبؓ، عکرمہ، اور مجاہدؒ وغیرہ کے اقوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد پوری امت ہے باقی رہے(كَانَ) کے معنی تو اس قسم کے مواقع پر (كَانَ) کا ذکر اور حذف برابر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ﴾ (الأنفال:8:26) دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلا﴾ (الأعراف۔86:7) ان دونوں آیات کے معنی ایک ہی ہیں، نیز حدیث میں ہے: "میری اُمت تمام اُمتوں سے بہتر بنائی گئی ہے۔" (مسند أحمد:383/5) اس لیے بہترہے کہ (خَيْرَ أُمَّةٍ ) سے پوری اُمت محمدیہ مراد لی جائے لیکن مشروط طور پر جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
3۔ اس اُمت کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ جہاد کرکے لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہیں جس سے انھیں دنیا وآخرت کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ اس بات کا اشارہ حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ واللہ المستعان۔