تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ عقل مند وہ لوگ ہیں جو کار خانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قدرت و تصرف کی حقیقت کے قریب پہنچ جاتے ہیں پھر اس اعتراف حقیقت کے نتیجے میں ان کے بدن کا رواں رواں محبت الٰہی میں سر شار ہو جاتا ہے اور حمد و ثنا کرنے لگتے ہیں ہر وقت اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کی عظمت کا عتراف کرتے ہیں لیکن کو لوگ اس کار خانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ عالم مادے سے بنا ہے پھر اتفاق سے یوں ہو گیا۔ اور اس مضبوط و مربوط نظام کا ئنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔ وہ ہر گز اہل عقل نہیں کیونکہ اتفاق سے کبھی کبھار تو خیر پیدا ہو سکتی ہے لیکن مسلسل خیر کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ گویا اس آیات میں دہریت اور نیچریت کا رد موجود ہے۔
2۔ بہر حال کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اہل عقل و خرد ابتدائے آدم سے لے کر غور و فکر کرتے رہے ہیں، پھر جس کی سائنس دان یا فلاسفر نے بھی وحی الٰہی سے بے نیاز ہو کر سوچنا شروع کیا تو اکثر ان کی عقل نے ٹھوکر ہی کھائی ہے۔ واللہ المستعان۔