تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ آیت اور اس حدیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن اگر کوئی ذلت و رسوائی سے بچنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے نماز تہجد کا اہتمام کرے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اپنا ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ مجھے خواب میں دو فرشتوں نے پکڑا اور آگ کی طرف لے گئے۔ وہاں میں نے چند ایک جانے پہچانے لوگوں کو دیکھا۔ میں یہ منظر دیکھ کر آگ سے اللہ کی پناہ مانگنے لگا۔ اس دوران میں مجھے ایک اور فرشتہ ملا تو اس نے مجھے کہا: گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے یہ خواب اپنی ہمشیر حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنایا تو آپ نے فرمایا: "عبد اللہ بہت اچھا آدمی ہے کاش یہ نماز تہجد کا اہتمام کرے۔" اس کے بعد حضرت عبد اللہ ؓ رات کو بہت کم سوتے تھے۔ (صحیح البخاري، التهجد، حدیث:121۔122۔)
2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز تہجد کا اہتمام کرنے والا دوزخ کی رسوائی سے محفوظ رہے گا۔ واللہ اعلم۔