تشریح:
1۔ مذکورہ بالا آیت دو قسم کے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ©ایک تو وہ جن کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہوتی اور وہ اس کی بد صورتی یا کسی اور وجہ سے اس کے نکاح میں کوئی رغبت تو نہ رکھتے ہوں لیکن اس وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کر لیں کہ لڑکی مال دار ہے یا وہ ان کے مال میں شریک ہے۔ وہ کسی اور سے اس کا نکاح کر کے تیسرے آدمی کو مال میں شریک نہ کرنا چاہتے ہوں۔ ©دوسرے وہ جن کی پرورش میں یتیم لڑکی ہوتی اور وہ اس کے حسن و جمال اور مال و دولت کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح میں رغبت بھی رکھتے ہوں لیکن نکاح کرتے وقت حق مہر میں بے انصافی کریں اور پورا حق مہر نہ ادا کریں ان دونوں قسم کے لوگوں کو اس آیت کریمہ مین اپنی زیر پرورش لڑکیوں سے نکاح کرنے کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔
2۔ اس روایت کے آخر میں جو بات شک کے ساتھ بیان ہوئی ہے اسے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت میں یقین کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ "یہ اس آدمی کی بابت ہے جو کسی یتیم لڑکی کا سر پرست ہوتا اور وہ لڑکی اس کے ساتھ اس کے مال حتی کہ کھجور کے درخت میں بھی حصہ دار ہوتی لیکن سر پرست اس سے نکاح میں کوئی رغبت نہ رکھتا حتی کہ یہ بھی پسند نہ کرتا کہ کسی اور کے ساتھ اس کا نکاح کردے اور اسے اپنے مال میں شریک کر لے چنانچہ وہ اس لڑکی کو یوں ہی لٹکائےرکھتا۔ اس آیت کریمہ میں اس طرح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔'' (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4600) بہرحال اس حدیث میں ایک ہی قسم کو بیان کیا گیا ہے جبکہ آئندہ حدیث میں اس کی تفصیل ہے۔