تشریح:
1۔ حضرت ابن عباس ؓ نے﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد صرف وہی لوگ لیے ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے مؤاخات کروائی تھی جبکہ ان کے علاوہ دیگر مفسرین نے اسے عام قراردیا ہے چنانچہ علامہ طبری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کا حلیف بن جاتا اگرچہ ان دونوں کے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا تھا تاہم اس حلف و معاہدے کی بدولت دونوں ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔ (تفسیر الطبري، تفسیر سورہ النساء، تحت آیت:33)
2۔ عقد حلف یہ ہے کہ کوئی مجہول النسب دوسرے سے کہے کہ تو میرا مولی ہے میں مر جاؤں توتو میرا وارث ہوگا اور میں کوئی خیانت کروں تو تجھے میری طرف سے دیت ادا کرنی ہوگی۔ اور دوسرا بھی اسی طرح کہے تو دونوں ایک دوسرے کے وارث بن جائیں گے اور دونوں پر ایک دوسرے کی دیت ادا کرنا لازم ہو گی۔ عقد حلف ابتدائے اسلام میں تھا اب منسوخ ہے۔