قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ} )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: يَعْنِي زِنَةَ ذَرَّةٍ:

4581. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أُنَاسًا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ قَالُوا لَا قَالَ وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ قَالُوا لَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللَّهِ مِنْ الْأَصْنَامِ وَالْأَنْصَابِ إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ بَرٌّ أَوْ فَاجِرٌ وَغُبَّرَاتُ أَهْلِ الْكِتَابِ فَيُدْعَى الْيَهُودُ فَيُقَالُ لَهُمْ مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ لَهُمْ كَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ فَمَاذَا تَبْغُونَ فَقَالُوا عَطِشْنَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا فَيُشَارُ أَلَا تَرِدُونَ فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى فَيُقَالُ لَهُمْ مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ لَهُمْ كَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ فَيُقَالُ لَهُمْ مَاذَا تَبْغُونَ فَكَذَلِكَ مِثْلَ الْأَوَّلِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنْ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا فَيُقَالُ مَاذَا تَنْتَظِرُونَ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ قَالُوا فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا عَلَى أَفْقَرِ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ رَبَّنَا الَّذِي كُنَّا نَعْبُدُ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 «مثقال ذرة» سے ذرہ برابر مراد ہے۔

4581.

حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں کچھ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔ کیا تمہیں دوپہر کے وقت آفتاب دیکھنے میں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ وہ خوب روشن ہو اور درمیان میں کوئی بادل بھی حائل نہ ہو؟‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں چودھویں کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری آتی ہے جبکہ وہ چاندنی بکھیر رہا ہو اور اس میں کوئی بادل بھی رکاوٹ نہ ہو؟‘‘ صحابہ نے عرض کی: نہیں۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ رب العزت کو دیکھنے میں اتنی ہی دقت ہو سکتی ہے جتنی سورج یا چاند کو دیکھنے میں ہو سکتی ہے۔‘‘ (یعنی بالکل دشواری نہیں ہو گی۔) جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ہر گروہ اس کے پیچھے ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتا تھا، چنانچہ اللہ کے سوا بتوں اور پتھروں کی عبادت کرنے والوں میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ سب دوزخ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے تھے اور ان میں اچھے برے سب طرح کے مسلمان اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ ہوں گے۔ (سب سے پہلے) یہودیوں کو بلایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: وہ کون ہے جس کی تم عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم حضرت عزیر ؑ کی عبادت کرتے تھے جو اللہ کا بیٹا ہے۔ تب ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو کیونکہ اللہ تعالٰی نے کسی کو اپنی بیوی اور بیٹا نہیں بنایا۔ اچھا اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی پلا، چنانچہ انہیں ایک سراب کی طرف اشارہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا: وہاں جاؤ۔ درحقیقت وہ پانی نہیں بلکہ جہنم ہوگا جس کا ایک حصہ دوسرے کو چکنا چور کر رہا ہو گا۔ وہ بے تاب ہو کر اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور آگ میں کود جائیں گے۔ ان کے بعد عیسائیوں کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اللہ کے بیٹے حضرت مسیح ؑ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا: تم جھوٹے ہو، بھلا اللہ کے لیے بیوی اور اولاد کہاں سے آئی؟ پھر ان سے کہا جائے گا: اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ بھی ایسا ہی کہیں گے جیسا یہودیوں نے کہا تھا۔ (اور وہ بھی دوزخ میں جا گریں گے۔) اب وہی لوگ رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہوں گے۔ (اس وقت) ان کے پاس اللہ تعالٰی ایک صورت میں جلوہ گر ہوگا جو اس پہلی صورت سے ملتی جلتی ہو گی جسے وہ دیکھ چکے ہوں گے۔ ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ تم کس کے انتظار میں کھڑے ہو؟ ہر امت تو اپنے معبود کے پاس چلی گئی ہے۔ وہ عرض کریں گے: ہمیں دنیا میں جہاں لوگوں کی زیادہ ضرورت تھی، اس وقت تو ہم نے ان کا ساتھ نہ دیا تو اس وقت کیوں دیں؟ بلکہ ہم تو اپنے سچے پروردگار کا انتظار کر رہے ہیں جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے تھے۔ اس وقت پروردگار فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ پھر سب دو یا تین بار یوں کہیں گے: ’’ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والے نہیں ہیں۔‘‘