تشریح:
1۔ بلاوجہ کسی کا خون ناحق بہت بڑا جرم ہے۔ قرآن مجید نے ایسے خونی انسان کو پوری نوع انسانی کا قاتل قراردیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف بہت واضح ہے کہ ایسے قاتل کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ چنانچہ ایک دوسری روایت میں حضرت سعید بن جبیر ؒ کہتے ہیں کہ مجھے عبدالرحمان بن ابزیٰ نے کہا: تم حضرت ابن عباس ؓ سے درج ذیل دو آیات کے متعلق سوال کرو: ©۔ ''اور جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے نہ اللہ کی حرام کردہ کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کردیا جائےگا۔ اور وہ ذلیل ہوکر اس میں ہمیشہ کےلیے پڑ ارہےگا،ہاں جو شخص توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ نیکیوں میں بدل دے گا۔"( الفرقان:70:25) ©۔ اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔" (النساء:93/4) میں نے ان آیات کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: جو آیت سورۃ الفرقان میں ہے وہ اہل مکہ کے مشرکین سے تعلق رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا: ہم نے اللہ کی حرام کردہ جانوں کوقتل کیا ہے اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو معبود بھی بنایا، نیز فواحش ومنکرات کا ارتکاب بھی کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کے لیے نازل فرمایا کہ ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے۔۔۔ یعنی یہ آیات مشرکین مکہ کے بارے میں ہیں۔ جو آیت سورۃ النساء میں ہے یہ اس شخص کے متعلق ہے جو اسلام لایا اور اس کے احکامات کو پہچانا پھر کسی قتل کا مرتکب ہوا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ میں نے اس مؤقف کا ذکر حضرت مجاہد ؒ سے کیا تو انھوں نے فرمایا: وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کرلیں۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3855) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ایسے آدمی کی کوئی توبہ نہیں ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الفرقان مکی سورت ہے جسے اس آیت نے منسوخ کردیا ہے جو مدنی سورۃ النساء میں ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4762) حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جسے حضرت معاویہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ہرگناہ معاف کردے گا مگر وہ آدمی کہ کفر کی حالت میں مرا اور دوسرا وہ آدمی جس نے کسی دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا۔" (مسندأحمد:99/4۔)
2۔ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ قاتل کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے اگروہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اس گناہ عظیم کی معافی ہوسکتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں درج ذیل دلائل پیش کرتے۔ ©۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایاجائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف کردے گا۔" (النساء:48/4) یہ آیت عام ہے کہ شرک کے علاوہ ہرگناہ قابل معافی ہے اور دانستہ قتل کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ ©۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "آپ لوگوں سے کہہ دیں:اے میرے وہ بندو جنھوں نے اپنی جانوں سے زیادتی کی ہے!اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔یقیناً بے شک اللہ سب گناہ معاف کردے گا کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے۔'' (الزمر:53:39) ©۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "میرے بندو!تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں، لہذا تم مجھ سے معافی مانگو،میں معاف کردوں گا۔" (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، حدیث:6672۔ (2577)) ©۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ دوآدمیوں سے بہت خوش ہوتا ہے ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے لیکن دونوں جنت میں داخل ہوجاتے ہیں:ایک تواللہ کے راستے میں قتال کرتا ہے اور وہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور وہ بھی مسلمان ہوکر شہید ہوجاتا ہے۔'' (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث:2826) 3۔ ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہل علم کا موقف ہی قابل اعتبار ہے کیونکہ قرآن وحدیث سے اس کی واضح طور پر تائید ہوتی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ ایک اسرائیلی نے سوآدمی قتل کردیے تو ایک عالم نے کہا: کون ہے جو تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان حائل ہوسکے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3470) الغرض اسے معاف کردیا گیا۔ یہ حدیث نص صریح ہے کہ قاتل کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قتل کو حلال سمجھتا ہو یا وہ قاتل توبہ کے بغیر مرجائے، اسے سنگینی اور تغلیظ پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے، نیز قرآنی آیت میں خلود سے مراد لمبی مدت ہو ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا نہیں کیونکہ یہ سزا توصرف اور صرف مشرکین اور کفار کے لیے ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ واقعی دیدہ دلیری سے کسی مومن مومن کو قتل کرنے کی سزا یہی ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب اللہ تعالیٰ اسے سزا دینا چاہے اور اس سزا کے لیے کوئی مانع نہ ہو۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے تو توبہ کرنے سے اس کا گناہ معاف ہوجائے تو پھر اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رکھا جائے گا۔ بہرحال جمہور اہل علم کا موقف حقیقت پر مبنی ہے اور دلائل وبراہین سے مزین ہے۔ واللہ اعلم۔