تشریح:
1۔ یہ اس دور کی بات ہے جب حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے مکہ مکرمہ میں خلافت کا دعویٰ کیا۔ انھوں نے اہل شام سے جنگ کرنے کےلیے اہل مدینہ کو ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا۔ اس لشکر میں ابوالاسود کا نام بھی لکھا گیا۔ حضرت عکرمہ ؒ نے انھیں سختی سے منع کیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو مشرکین کی تعداد بڑھانے کے لیے ان کے ساتھ جاتے تھے، حالانکہ وہ دل سے مسلمانوں کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ابوالاسود کا بھی یہ حال تھا۔ وہ دل سے اہل شام کے خلاف لڑنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ جنگ فی سبیل اللہ نہیں بلکہ صرف ملک گیری کے لیے تھی۔ ان کا مقصد صرف ان کی تعداد کو بڑھانا تھا، اس لیے حضرت عکرمہ ؒ نے انھیں بڑی سختی کے ساتھ لشکر میں شمولیت سے منع کیا۔
2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف دشمن کی فوج میں بھرتی ہو۔ واللہ المستعان۔