قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ (إِنَّ المُنَافِقِينَ فِي اَلدَّرَكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ))

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " أَسْفَلَ النَّارِ، {نَفَقًا} [الأنعام: 35]: سَرَبًا " .

4602. حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ كُنَّا فِي حَلْقَةِ عَبْدِ اللَّهِ فَجَاءَ حُذَيْفَةُ حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا فَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ لَقَدْ أُنْزِلَ النِّفَاقُ عَلَى قَوْمٍ خَيْرٍ مِنْكُمْ قَالَ الْأَسْوَدُ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي اَلدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ فَتَبَسَّمَ عَبْدُ اللَّهِ وَجَلَسَ حُذَيْفَةُ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ فَتَفَرَّقَ أَصْحَابُهُ فَرَمَانِي بِالْحَصَا فَأَتَيْتُهُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ عَجِبْتُ مِنْ ضَحِكِهِ وَقَدْ عَرَفَ مَا قُلْتُ لَقَدْ أُنْزِلَ النِّفَاقُ عَلَى قَوْمٍ كَانُوا خَيْرًا مِنْكُمْ ثُمَّ تَابُوا فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ.

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اور ابن عباسؓ نے کہا کہ «الدرك أسفل» سے مراد جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہے اور سورۃ الانعام میں «نفقا» بمعنی «سربا» یعنی سرنگ مراد ہے۔تشریح:اس کو ابن ابی حاتمؓ نے ابن عباسؓ سے وصل کیا ہے اس تفسیر کو امام بخاری یہاں اس لیے لائے ہیں کہ منافق اور نفق کا مادہ ایک ہی ہے دوزخ کے سات طبقے ہیں جہنم‘ویل‘ حطمہ‘سعیر‘سعر‘حجیم اور ہاویہ۔پس منافق درک اسفل یعنی ہاویہ میں ہوں گے وہ دوزخ کی تہہ میں آگے کے صندوقوں میں ہوں گے جو ان پر دہکتے ہوں گے۔ابن جریر)

4602.

حضرت اسود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ  کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک وہاں حضرت حذیفہ ؓ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر انہوں نے سلام کیا اور فرمایا کہ نفاق میں وہ جماعت بھی مبتلا ہو گئی تھی جو تم سے بہتر تھی۔ اسود نے کہا: سبحان اللہ! اللہ تعالٰی تو فرماتا ہے: "منافق، دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔" حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مسکرانے لگے اور حضرت حذیفہ ؓ مسجد کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی چلے گئے۔ اسود نے کہا کہ حضرت حذیفہ ؓ نے مجھے کنکری ماری تو میں ان کے پاس چلا آیا۔ انہوں نے فرمایا: مجھے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے تبسم پر حیرت ہوئی، حالانکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے۔ یقینا نفاق میں ایک ایسی قوم کو مبتلا کیا گیا جو تم سے بہتر تھے۔ پھر انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول کر لی۔