تشریح:
1۔ حضرت حذیفہ ؓ کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کچھ لوگ اسلام کا اقرار کرنے کے بعد مرتد ہوگئے اور مرض نفاق کا شکار ہوئے اور وہ بہتر لوگ لوگ تھے کیونکہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا طبقہ تابعین کے طبقے سے بہتر ہے لیکن ان کے مرتد ہونے اور منافق بن جانے کی وجہ سے ان کے بہتر ہونے کا وصف جاتا رہا۔ ان میں سے جب کچھ تائب ہوئے تو ان کے بہتر ہونے کا وصف واپس آگیا۔
2۔ حضرت حذیفہ ؓ ان کومتنبہ کرنا چاہتے تھے کہ تم لوگ خیر القرون نہیں ہو، تمھیں بطریق اولیٰ ڈرنا چاہیے کیونکہ اعمال کا دار و مدار خاتمے پر ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال پر اعتماد کرکے بیٹھ جاؤ۔ اس طرح ایمان کے رخصت ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی بھی مرتد نہیں ہوا، البتہ کچھ اعراب (بدو) دین سے ضرور پھر گئے تھے۔
3۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ملنے والے اعراب بھی اس قماش کے تھے یا کچھ یہودی کسی سازش کے تحت بظاہر مسلمان ہوئے اور پھر مرتد ہوگئے جیسا کہ ان میں ایک کاتب وحی یہودی تھا جومسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوا اور زمین نے اسے مرنے کے بعد قبول نہ کیا۔