تشریح:
1۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے جس دن یہ آیت کریمہ نازل ہوئی وہ جمعے کا دن تھا۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:45) سفیان ثوری کے شک کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات سوموار کے دن ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی جیسا کہ مشہور ہے اگر یوم عرفہ جمعے کا دن تھا تو پھر کسی صورت میں بارہ ربیع الاول کو سوموار کا دن نہیں پڑتا، بہر حال اس بات پر اتفاق ہے کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی وہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جمعہ اور عرفہ دونوں دن ہمارے لیے عید ہیں طبرانی کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ (فتح الباري:142/1، والمعجم الأوسط للطبراني:202/1)
2۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمعہ کا دن تو واقعی ہمارے لیے عید ہے لیکن عرفہ کے دن کو عید کس بنا پر کہا گیا ہے؟ اس کےدو جواب دیے گئے ہیں۔ ©۔ حج کرنے والوں کی اصل عید تو یوم عرفہ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس دن حج کار کن اعظم یعنی وقوف عرفہ ادا ہوتا ہے۔ ©۔ اصل عید تو دسویں تاریخ یوم النحر کو ہوتی ہے چونکہ یہ دن یوم عرفہ کے متصل ہوتا ہے اور کسی شے کے قرب کو بھی وہی حکم دیا جاتا ہے جو اصل چیز کا ہوتا ہے، اس لیے یوم عرفہ کو عید کہا ہے کیونکہ اس کے متصل لیلۃ العید شروع ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔