قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ [يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا، أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا} إِلَى قَوْلِهِ {أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الأَرْضِ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: المُحَارَبَةُ لِلَّهِ الكُفْرُ بِهِ»

4610. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ حَدَّثَنِي سَلْمَانُ أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَذَكَرُوا وَذَكَرُوا فَقَالُوا وَقَالُوا قَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ وَهْوَ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَقَالَ مَا تَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ أَوْ قَالَ مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ قُلْتُ مَا عَلِمْتُ نَفْسًا حَلَّ قَتْلُهَا فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَنْبَسَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ بِكَذَا وَكَذَا قُلْتُ إِيَّايَ حَدَّثَ أَنَسٌ قَالَ قَدِمَ قَوْمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمُوهُ فَقَالُوا قَدْ اسْتَوْخَمْنَا هَذِهِ الْأَرْضَ فَقَالَ هَذِهِ نَعَمٌ لَنَا تَخْرُجُ فَاخْرُجُوا فِيهَا فَاشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَخَرَجُوا فِيهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا وَاسْتَصَحُّوا وَمَالُوا عَلَى الرَّاعِي فَقَتَلُوهُ وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ فَمَا يُسْتَبْطَأُ مِنْ هَؤُلَاءِ قَتَلُوا النَّفْسَ وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَخَوَّفُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ فَقُلْتُ تَتَّهِمُنِي قَالَ حَدَّثَنَا بِهَذَا أَنَسٌ قَالَ وَقَالَ يَا أَهْلَ كَذَا إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا أُبْقِيَ هَذَا فِيكُمْ أَوْ مِثْلُ هَذَا.

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ «يحاربون» سے کفر کرنا مراد ہے۔

4610.

حضرت ابوقلابہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے تو مجلس میں قسامت کا ذکر آ گیا۔ لوگوں نے کہا: قسامت میں قصاص ہوتا ہے۔ آپ سے پہلے خلفاء نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ تب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ وہ ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا: عبداللہ بن زید! تمہاری اس کے متعلق کیا رائے ہے یا یوں کہا: اے ابوقلابہ! آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی: مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں کہ اسلام میں کسی کا قتل جائز ہو، سوائے اس شخص کے جو شادی شدہ ہونے کے با وجود زنا کرے یا کسی کو ناحق قتل کرے یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے مرتد ہو جائے۔ اس پر حضرت عنبسہ نے کہا: ہم سے تو حضرت انس نے ایسی ایسی حدیث بیان کی تھی۔ میں نے کہا: مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی کہ کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراسلام پر بیعت کرنے کے بعد انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کی: ہمیں اس شہر (مدینہ طیبہ) کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے یہ اونٹ چرنے کے لیے باہر جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ وہاں چلے جاؤ۔ ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔‘‘ چنانچہ وہ لوگ اونٹوں کے ساتھ چلے گئے، وہاں ان کا دودھ اور پیشاب پیا تو وہ تندرست ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے چرواہے پر حملہ کیا، اسے قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ اب ایسے لوگوں سے قصاص لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا؟ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا، اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت کی، پھر رسول اللہ ﷺ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عنبسہ نے اس پر سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا: کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: ایسا نہیں ہے۔ یہی حدیث حضرت انس نے مجھ سے بھی بیان کی تھی (لیکن میں نے اس لئے تعجب کا اظہار کیا کہ تمہیں حدیث یاد رہتی ہے)۔ راوی نے کہا کہ حضرت عنبسہ نے فرمایا: اے اہل شام! جب تک تمہارے ہاں ابوقلابہ یا اس جیسے عالم موجود رہیں گے تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔