تشریح:
1۔ کسی نامعلوم قتل پر اس محلے کے پچاس آدمی حلف اٹھائیں کہ ہم اس سے بری الذمہ ہیں قسامت کہلاتا ہے، قسامت میں قصاص ہے یا دیت؟ اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابو قلابہ کا مطلب یہ تھا کہ قسامت میں قصاص نہیں بلکہ دیت دلائی جائے جبکہ دوسرے اہل مجلس کا موقف تھا کہ اس میں قصاص ہے ایک دوسری روایت میں حضرت قلابہ نے اپنے موقف کی ان الفاظ میں وضاحت کی ہے فرماتے ہیں اے امیر المومنین! آپ کے پاس فوج کے سردار اور عرب کے اشراف ہیں اگر ان میں سے پچاس آدمی ایک ایسے شادی شدہ مرد پر گواہی دیں جو دمشق کا رہنے والا ہو کہ اس نے زنا کیا اور انھوں نے اسے آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو کیا آپ اسے ان کی گواہی سے رجم کریں گے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں، ابو قلابہ نے کہا: اگر ان میں سے پچاس آدمی ایک شخص کے خلاف چوری کی گواہی دیں جو حمص میں ہو اور انھوں نے اسے دیکھا نہ ہو تو کیا آپ ان کی گواہی سے اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ انھوں نے کہا: نہیں پھر انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے تین قسم کے لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان میں قسامت کی بنا پر قتل کرنا نہیں ہے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث:6898)
2۔ حضرت قلابہ نے موجبات قتل کو صرف تین اسباب میں بند کر دیا جن میں قسامہ نہیں ہے پھر حضرت عنبسہ نے حدیث عرنیین بیان کر کے قتل کو ڈاکا زنی میں بند کر دیا کہ محاربین کو قتل کیا جائے ان کا مطلب تھا کہ جواز قتل ان تین اسباب میں منحصر نہیں ہے ابو قلابہ نے جواب دیا کہ عرنیین کا قصہ ان تینوں امور سے خارج نہیں ہے۔
3۔ بہر حال امام بخاریؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قسامہ میں قصاص نہیں ہے بلکہ اس میں صرف دیت دلائی جائے گی جیسا کہ انھوں نے کتاب الدیات کے باب القسامۃ میں اشارہ کیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ۔
4۔ آیت مذکورہ کو صرف ڈکیتی کی واردات پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے وسیع مفہوم میں لینا چاہیے کہ اسلام کے خلاف گمراہ کن پرو پیگنڈا مجرمانہ سازشیں اسلامی حکومت سے غداری اور مسلح بغاوت یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ اور فساد فی الارض میں شامل ہے، چنانچہ یہ حدیث بیان کے بعد ابو قلابہ کہنے ہیں کہ انھوں نے چوری کی خون کیا، ایمان کے بعد مرتد ہوئے، اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کیا اس لیے انھیں سنگین سزا سے دو چار کیا گیا۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:233)